حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ - حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ
رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدرصحابی حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کی پیدائش مکہ شہر میں ہوئی تھی جہاں ان کاتعلق حبشی غلاموں کے ایک خاندان سے تھا،سردارانِ قریش میں سے ایک نامورشخصیت اُمیہ بن خلف کے یہ غلام تھے،اُس دورمیں غلاموں کی جوزندگی ہواکرتی تھی ٗ ویسی ہی زندگی یہ بھی گذاررہے تھے،شب وروزبلاچون وچرااپنے آقاکی خدمت اوراس کیلئے محنت ومشقت …اوربس…یہی ان کی زندگی تھی… انہی دنوں مکہ شہرمیں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے چرچے ہونے لگے،تب سردارانِ قریش آپؐ کی باتوں کامذاق اُڑایاکرتے ، خوب تماشابنایاکرتے،اوران بیہودہ حرکات میں بلال کاآقاامیہ بن خلف سب ہی سے پیش پیش ہواکرتاتھا،آپؐ کے بارے میں نازیباالفاظ کااستعمال ٗاوراخلاق سے گرے ہوئے کلمات…یہی امیہ کاروزمرہ کامعمول تھا۔ بلال کے کانوں تک یہ تمام باتیں پہنچتی رہتی تھیں ،دینِ برحق کی طرف دعوت دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ مکہ والوں کوجوکچھ کہاکرتے تھے…وہ بھی…نیزجواب میں سردارانِ قریش آپؐ کے بارے میں جوکچھ کہاکرتے تھے …وہ بھی… اس حوالے سے ایک عجیب وغریب بات جواُن دنوں بلال نہایت شدت کے ساتھ محسوس کیاکرتے تھے ٗوہ یہ کہ ان کاآقاامیہ بن خلف ٗ نیزاس کے ہمنوارؤسائے قریش رسول اللہ ﷺ کاخوب مذاق بھی اڑایاکرتے تھے…لیکن ساتھ ہی وہ اکثروبیشترآپس میں ایک دوسرے کومخاطب کرتے ہوئے یوں بھی کہاکرتے تھے کہ ’’بخداہم نے کبھی محمد ( ﷺ ) کو جھوٹ بولتے ہوئے نہیں سنا،خیانت کرتے ہوئے نہیں دیکھا،غداری ٗ بیوفائی ٗ اوروعدہ خلافی کرتے ہوئے نہیں پایا…‘‘ تب بلال کوبڑی حیرت ہوتی کہ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کامذاق بھی اڑاتے ہیں ، جھٹلاتے بھی ہیں ، بیہودہ گوئی بھی کرتے ہیں ، ایذاء بھی پہنچاتے ہیں …لیکن باہم ہمیشہ آپؐ کے اعلیٰ اخلاق وکردارکی خوب تعریف بھی کیاکرتے ہیں …یہ توبڑاہی عجیب معاملہ تھا۔ بلال اکثران رؤسائے قریش کواسی بارے میں باہم سرگوشیاں کرتے ہوئے سنتے…ان کی سماعت سے وقتاً فوقتاً ان کی باتیں ٹکراتی رہتیں ،آخرکافی دنوں تک ان کی یہ سرگوشیاں مسلسل سنتے رہنے کے بعدبلال اس نتیجے پرپہنچے کہ یہ تمام رؤسائے قریش رسول اللہ ﷺ کی حقانیت وصداقت سے خوب واقف ہیں اورمزیدیہ کہ اس چیزکے معترف بھی ہیں … لیکن اس کے باوجودیہ جوآپؐ کی مخالفت اوربغض وعنادپرکمربستہ ہیں …ان کی اس حرکت کے پیچھے دواسباب کارفرماہیں : پہلاسبب یہ کہ یہ لوگ اپنے آباؤاجدادکے دین کوترک کرکے دینِ اسلام قبول کرلینے کواپنے آباؤاجدادکے ساتھ ٗ نیزان کے دین کے ساتھ غداری وبے وفائی تصورکرتے ہیں ، جوکہ انہیں کسی صورت قبول نہیں ۔ دوسراسبب یہ کہ انہیں یہ خوف لاحق ہے کہ دینِ اسلام قبول کرلینے اوررسول اللہ ﷺ کواللہ کانبی تسلیم کرلینے کی صورت میں انہیں دینِ اسلام کی تعلیمات کی پیروی کرنا ہوگی، آپ ؐکا اتباع کرناہوگا…تب ان کی اپنی’’ سرداری‘‘ کاکیابنے گا…؟ اسی کیفیت میں وقت گذرتارہا…رفتہ رفتہ بلال کے دل میں یہ خواہش پیداہونے لگی کہ کسی طرح رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی جائے ،اوران کی گفتگوبراہِ راست سنی جائے۔ چنانچہ ایک روزموقع پاکربلال رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے،آپؐ سے ملاقات ہوئی،آپؐ کی مبارک گفتگوسنی ،جس پربلال انتہائی متأثرہوئے، اوردعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے مسلمان ہوگئے۔ بلالؓ کے قبولِ اسلام کی خبرمشہورہوتے ہی بڑے بڑے رؤسائے قریش کے غیظ وغضب کی انتہاء نہ رہی،خصوصاً بلالؓ کاآقااُمیہ بن خلف توآگ بگولہ ہوگیا…تکبروغروراورغصے کی وجہ سے اس کابراحال ہوگیا،اوروہ یوں کہنے لگاکہ’’میرایہ حقیرساغلام…اس کی یہ جرأت …کہ اس نے میرادین چھوڑکرمحمد( ﷺ )کادین اپنالیا…‘‘یعنی اس نے اس بات کواپنے لئے بہت بڑی بے عزتی اورذلت ورسوائی کاذریعہ سمجھاکہ میراکوئی غلام میرے ہی دین سے منہ موڑکرکسی اورکادین اختیارکرلے۔ اورپھروہ اپنے دوستوں کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے یوں کہنے لگا: اِنَّ شَمسَ ھٰذَا الیَومَ لَن تَغرُبَ اِلّا وَ یَغرُبُ مَعَھَا اِسلَامُ ھٰذَا العَبْدِ الآبِق ، لَابَأس… یعنی’’کوئی بات نہیں …آج کاسورج غروب ہونے کے ساتھ ہی میرے اس نافرمان اورگستاخ غلام کا اسلام بھی غروب ہوجائے گا‘‘ بلالؓ کے مشرک اوربدمزاج آقانے توبلالؓ کے بارے میں ٗ نیزدینِ اسلام کے بارے میں یہ دعویٰ کیاتھاکہ’’آج غروبِ آفتاب کے ساتھ ہی اس غلام کایہ نیادین بھی ہمیشہ کیلئے غروب ہوجائے گا‘‘۔ لیکن راہِ حق میں بلالؓ کی ثابت قدمی نے ثابت کردکھایاکہ ان کے اسلام کاسورج کبھی غروب نہیں ہوا…تادمِ آخران کادل ایمان کے نورسے جگمگاتاہی رہا ، البتہ ان کاوہ مغروروبدبخت آقاجس دین پرتھا،یعنی کفروشرک اورمعصیت وضلالت… اس باطل کاسورج رفتہ رفتہ مکہ شہرسے ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا… اس ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کرنے والوں کوجن شدیدترین مشکلات سے دوچار ہوناپڑتاتھا…وہی تمام مشکلات حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کے سامنے بھی آکھڑی ہوئیں …سردارانِ قریش کی طرف سے تکالیف اورایذاء رسانیوں کاایک لامتناہی سلسلہ تھا،چنانچہ کبھی ان کی پشت ننگی کرکے دہکتے ہوئے انگاروں پرلٹادیاجاتا،کبھی شدیدگرمی میں تپتی ہوئی ریت پرلٹاکرسینے پربھاری پتھررکھ دیاجاتاتاکہ حرکت نہ کر سکیں ، کبھی پاؤں میں رسیاں ڈال کردن بھرمکہ کی پتھریلی اورآگ اگلتی ہوئی گلیوں میں گھسیٹا جاتا… لیکن ظلم وستم اوروحشیت وبربریت کے اس تمامترسلسلے کے باوجودبلالؓ کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہ آئی …وحشیت وبربریت کے اس لامتناہی سلسلے کے دوران شدتِ تکلیف کی وجہ سے اکثران پرغشی طاری ہوجایاکرتی ،اورجب وہ ذرہ ہوش میں آتے … توان کی زبان پر’’اَحد…اَحد‘‘کاوردجاری ہوجاتا،یعنی’’اللہ ایک ہے…اللہ ایک ہے‘‘ ۔ ظلم وستم کایہ سلسلہ یونہی چلتارہا…ایک روزان جلادصفت اورسنگدل سردارانِ قریش میں سے کسی کوبلالؓ کی حالت دیکھ کرکچھ رحم آگیا،تب اس نے یہ پیشکش کی کہ’’دیکھوبلال!تم ہمارے خداؤں کے بارے میں بس ایک بارکوئی اچھی بات کہہ دو…یوں کہہ دوکہ اصل بڑاخداتویقینااللہ ہی ہے …مگریہ بھی چھوٹے خداہیں ، تب ہم تمہیں زدوکوب کرنے کایہ سلسلہ بندکردیں گے‘‘۔ نیزاس کے بعدبھی مسلسل سردارانِ قریش یوں کہتے رہے کہ ’’دیکھوبلال! ہماری عزت کاسوال ہے،ہماری عزت خطرے میں ہے،لوگ کیاکہیں گے کہ یہ اتنے بڑے بڑے ناموراور طاقتورترین رؤسائے قریش …یہ سب کے سب …اپنے ہی ایک معمولی سے غلام کے سامنے عاجزاوربے بس ہوگئے…لہٰذااے بلال!بس ایک بارہمارے خداؤں کے بارے میں تم کوئی اچھی بات کہہ دو…یوں ہماری بھی عزت رہ جائے گی … اورتمہاری بھی جان چھوٹ جائے گی‘‘۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کیلئے اس مسلسل عذاب سے جان چھڑانے کایہ سنہری موقع تھا ، لیکن اس کے باوجودانہوں نے بغیرکسی ادنیٰ ترددکے فوری طورپراوردوٹوک اندازمیں ان کی اس پیشکش کوصاف ٹھکرادیا…اورپھراس کے بعداسی کیفیت میں وہاں مکہ میں وقت گذرتارہا…رؤسائے قریش کی طرف سے بلالؓ کیلئے زدوکوب اورایذاء رسانیوں کا سلسلہ عروج پرہو…یاپیارومحبت کے ساتھ پیشکش کاکوئی موقع ہو…ہمیشہ ہی بلالؓ بڑے ہی جذباتی اندازمیں اپناوہی نغمۂ جاوداں گنگناتے رہے یعنی’’اَحد…اَحد‘‘۔ بلالؓ کی بے مثال استقامت کاہی یہ نتیجہ تھاکہ ان کاآقااُمیہ اب اکثرانہیں یوں کہاکرتاکہ ’’دیکھوبلال!اب تومجھے یوں محسوس ہونے لگاہے کہ تم سے زیادہ یہ عذاب خودمیں بھگت رہا ہوں …میری عزت بربادہورہی ہے…میں بڑی مصیبت میں پھنساہواہوں …اس لئے بس ایک بارہمارے بتوں کی بس تھوڑی سی تعریف کردو‘‘ لیکن بلال ؓ کی طرف سے وہی جواب ،یعنی ’’اَحد،اَحد‘‘کاوردسن کراُمیہ کے شعوروجدان میں ٗ اوراس کے دل ودماغ میں ایک زلزلہ سابرپاہونے لگتا…! ایک روزاسی طرح شدیدگرمی کے دنوں میں تپتی دوپہرمیں جب بلالؓ کے آقااُمیہ بن خلف نے انہیں جھلسادینے والی ریت پرلٹارکھاتھااورایذاء رسانی کاوہی پراناسلسلہ جاری تھاکہ اسی دوران اتفاقاًوہاں سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کاگذرہوا،انہوں نے جب یہ دردناک منظردیکھاتوان کے اٹھتے ہوئے قدم اسی جگہ رک گئے ،اورپھرانہوں نے اُمیہ اوراس کے ساتھیوں کوبآوازِبلندمخاطب کرتے ہوئے یوں کہا: أَتَقتُلُونَ رَجُلاً أنْ یَقُولَرَبِّيَ اللّہَ؟ یعنی’’کیاتم مارڈالوگے اس شخص کومحض اس وجہ سے کہ یہ یوں کہتاہے کہ’’ میرارب اللہ ہے؟‘‘(۱) اس کے بعداُمیہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے یوں کہا خُذ أکثَرَ مِن ثَمَنِہٖ وَاترُکہُ حُرّاً …یعنی’’اے اُمیہ !تم اس کی قیمت سے بھی زیادہ رقم مجھ سے وصول کرلو اوراسے آزادکردو‘‘ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے اس پیشکش کواُمیہ نے اپنے لئے بڑی خوش قسمتی سمجھاکہ اس طرح اس کی عزت بچ گئی…مزیدیہ کہ وہ سبھی رؤسائے قریش تھے ہی تجارت پیشہ لوگ،اوراس وجہ سے ہمیشہ اسی فکرمیں رہاکرتے تھے کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے…اوربس…یہی ان کامشغلہ اوران کامطلوب ومقصودتھا۔ چنانچہ اس نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی اس پیشکش کوفوراًہی قبول کرلیا،اورتب حضرت ابوبکرؓنے بلاتأخیرفوری طورپرمنہ مانگی قیمت اُمیہ کواداکی اوربلالؓ کواس سے خریدلیا، اور پھر اسی وقت وہیں کھڑے کھڑے اُمیہ اوراس کے ساتھیوں کے سامنے ہی بلالؓکوآزادبھی کردیا…اورپھریہ دونوں وہاں سے چل دیئے۔ تب اُمیہ اپنی خفت مٹانے کی غرض سے پیچھے سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ کوآوازدے کریوں کہنے لگا’’اگرآپ محض ایک اُوقیہ(۲)کے عوض بلال کومجھ سے مانگتے تب بھی میں ضروراسے آپ کے ہاتھ فروخت کردیتا…کیونکہ یہ توہے ہی ایسابیکاراوربے قیمت غلام‘‘ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ خوب جانتے تھے کہ اُمیہ کی اس بیکاراورفضول بات کاجواب دینے کی قطعاًکوئی ضرورت نہیں ہے …مگرپھربھی انہوں نے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایا ’’بلال کی جومنہ مانگی قیمت میں نے تمہیں اداکی ہے ،اگرتم اس سے زیادہ کاتقاضا کرتے ، تب بھی میں ضرور بلال کوتم سے خریدلیتا‘‘۔ اس کے بعدحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اپنے ہمراہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کولئے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے،آپؐ کوجب اس تمام صورتِ حال کی اطلاع ہوئی توآپؐ نے ظالم اُمیہ کے شکنجے سے بلالؓ کی آزادی پرانتہائی مسرت کااظہارفرمایا۔ ٭اورپھرمکی دورگذرتارہا…سن تیرہ نبوی میں ہجرتِ مدینہ کاحکم نازل ہونے پررسول اللہ ﷺ ودیگرتمام مسلمان اپناآبائی شہرمکہ اوراپناسب ہی کچھ چھوڑکرمحض اپنے دین وایمان کی حفاظت کی خاطرمکہ سے مدینہ ہجرت کرگئے۔انہی مہاجرین حضرات میں حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ ٭مدینہ پہنچنے کے بعداب اس نئے ماحول میں نئی زندگی کاجب آغازہواتورسول اللہ ﷺ نے وہاں اس نئے معاشرے کے استحکام اورنوزائیدہ اسلامی مملکت کومضبوط بنیادوں پراستوارکرنے کی غرض سے فوری طورپرچندبنیادی قسم کے اقدامات کئے ٗ جن کے اثرات وثمرات بہت ہی مفیدترین اور دوررس ثابت ہوئے… انہی فوری اوربنیادی قسم کے اقدامات میں سے ایک اقدام یہ تھاکہ مسجدِنبوی کی تعمیر کا مقدس ترین کام انجام دیاگیا،جس میں عام مسلمانوں کے شانہ بشانہ خودآپؐ بھی بنفس نفیس محنت ومشقت فرماتے رہے اورلکڑی ٗپتھر ٗ مٹی ٗ وغیرہ سامانِ تعمیراپنے کندھوں پرڈھوتے رہے… جب مسجدکی تعمیرمکمل ہوچکی تواب اس میں نمازباجماعت کی ادائیگی کامرحلہ آیا ٗتاکہ اللہ کے حکم کی تعمیل کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے میں باہمی اُخوت ومحبت ٗ مساوات ٗ تعارف ٗ ایک دوسرے کیلئے جذبۂ خیرسگالی ٗ خیرخواہی ٗ ہمدردی ٗ اورایک دوسرے کی خبرگیری کے مبارک جذبات مزیدمستحکم ہوں ، آپس میں قربتیں اورمحبتیں پروان چڑھیں ٗ اورنفرتوں اوردوریوں کاخاتمہ ہو…! اب اس موقع پرسوال یہ اٹھاکہ ہرنمازباجماعت کے وقت سب کومطلع کیسے کیاجائے کہ نمازکاوقت ہوچکاہے لہٰذاسب لوگ مسجدپہنچ جائیں ، ظاہرہے کہ اُس زمانے میں گھڑی تو تھی نہیں ،نہ ہی کوئی اورایساوسیلہ یاذریعہ تھا۔ آخرجب اس مقصدکیلئے ’’اذان‘‘کی مشروعیت ہوئی(۱)تواب یہ سوال درپیش آیاکہ ہر روز پابندی کے ساتھ پانچ بارمسجدِ نبوی میں ’’اذان‘‘دینے کایہ فریضہ کون انجام دے گا؟ اورتب رسول اللہ ﷺ کی نظرِانتخاب حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ پرپڑی… جو ابتدائے اسلام سے ہی ’’اَحد،اَحد‘‘کاوہ نغمۂ جاوداں گنگناتے چلے آرہے تھے،اوراسی کو انہوں نے شب وروزاپناوردبنارکھاتھا…لہٰذااب رسول اللہ ﷺ نے ’’اذان‘‘کیلئے بھی انہی کومنتخب فرمایا،تاکہ شب وروزاورصبح وشام اللہ ذوالجلال والاکرام کی تکبیروتہلیل کامقدس ترین فریضہ بھی یہی انجام دیں …اوریوں سالہاسال تک حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کی انتہائی مؤثرودلنشیں آوازمیں یہ اذان مدینہ کی فضاؤں میں گونجتی رہی،اوراہلِ ایمان کے دلوں کوگرماتی رہی،اوریوں خودرسول اللہ ﷺ کی طرف سے مبارک انتخاب کے نتیجے میں حضرت بلال ؓ تاریخِ اسلام میں اولین مؤذن مقررہوئے،جوکہ یقینابہت بڑاشرف اور اعزاز تھا۔ ہجرتِ مدینہ کے موقع پرمسلمان جب مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کرگئے تھے، تب ابتداء میں تومشرکینِ مکہ خوشی مناتے رہے کہ اچھاہوایہ مسلمان ہمارے شہرمکہ سے دورچلے گئے ، لیکن اس کے بعدجب انہیں اس قسم کی اطلاعات ملنے لگیں کہ مسلمان تواب وہاں مدینہ میں چین وسکون کی زندگی بسرکررہے ہیں …تووہ اس چیزکوبرداشت نہ کرسکے ،مزیدیہ کہ وہ سب تجارت پیشہ لوگ تھے،اورمکہ سے ملکِ شام کے درمیان وہ تجارتی شاہراہ جواُن کی معیشت کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھتی تھی ٗ راستے میں مدینہ سے گذرتی تھی،لہٰذااب انہیں یہ اندیشہ ستانے لگاکہ اگرمسلمانوں نے اس شاہراہ پرقبضہ کرلیاتب ان کی تجارت کاکیابنے گا…؟ یہی وہ اسباب تھے جن کی بناء پراب مشرکینِ مکہ کی راتوں کی نینداُڑنے لگی… اور پھر انہوں نے فوری طورپرمسلمانوں کونیست ونابودکردینے کی ٹھانی،جس کے نتیجے میں متعدد غزوات کی نوبت آئی۔ چنانچہ ہجرتِ مدینہ کے فوری بعدمحض اگلے ہی سال حق وباطل کے درمیان اولین معرکہ یعنی ’’غزوۂ بدر‘‘کے موقع پرکیفیت یہ ہوئی کہ مشرکینِ مکہ جب مسلمانوں کوہمیشہ کیلئے کچل ڈالنے کی غرض سے نہایت زوروشوراورجوش وخروش کے ساتھ تیاریوں میں مشغول تھے، تب ان سردارانِ قریش میں سے اُمیہ بن خَلَف(حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کا آقا)کافی بددلی اورتذبذب کاشکارتھا،کیونکہ اس جنگ کے تصورسے ہی اس کے شعورو وجدان پرعجیب و حشت سی طاری ہونے لگتی ،اورانجانے خوف کی ایک لہراس کے رگ وپے میں دوڑجاتی…حالانکہ اس سے قبل مختلف قبائلی جنگوں میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہاتھا اور نامی گرامی شہسوارتھا…لیکن اب غزوۂ بدرکے موقع پرمکہ سے روانگی سے قبل اپنے اسی انجانے خوف کی وجہ سے اس نے اس جنگ میں شرکت نہ کرنے کاحتمی فیصلہ کرلیا۔ بڑے بڑے رؤسائے قریش کوجب اُمیہ کے اس فیصلے کاعلم ہواتووہ حیرت زدہ رہ گئے، خاص طورپران رؤسائے قریش میں سے ایک نامی گرامی سردارجس کانام عُقبہ بن ابی معیط تھا، یہ اُمیہ کابہت ہی جگری اورقریبی دوست تھا،یہی اُمیہ کوحضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ پرظلم وستم ڈھانے اوروحشیانہ طریقے سے انہیں زدوکوب کرتے رہنے پراکسایا اور بھڑکایاکرتاتھا…اس سردارکوجب یہ علم ہواکہ اُمیہ نے مسلمانوں کے خلاف اس اولین جنگ میں شرکت نہ کرنے کافیصلہ کرلیاہے…تب اِس سے رہانہ گیا،اور اُمیہ کے ساتھ اس سلسلے میں گفت وشنیدکی غرض سے یہ چل پڑا،اُمیہ اس وقت بڑے بڑے سردارانِ قریش کے جھرمٹ میں بیٹھاہواتھا، محفل عروج پرتھی،تب اس کے دوست عقبہ نے وہاں پہنچتے ہی ان تمام معززسردارانِ قریش کی موجودگی میں اسے ’’بزدلی ‘‘ اور’’غداری‘‘ کاطعنہ دیا… تب اُمیہ حیران وپریشان اسے دیکھتاہی رہ گیا…لیکن ابھی وہ اس کیفیت سے نکلنے بھی نہ پایا تھا کہ ان تمام سردارانِ قریش کی نگاہوں کے سامنے عقبہ نے ایک اوربڑی ہی عجیب وغریب حرکت کرڈالی ، ہوایہ کہ وہ اپنے ہمراہ عورتوں کے بناؤسنگھارکاکچھ سامان لایاتھا، اس نے وہ سامان اُمیہ کی طرف اچھالتے ہوئے کہا’’اے اُمیہ !آج ہمیں پتہ چل گیاہے کہ تم مردنہیں ٗ بلکہ عورت ہو،لہٰذایہ سامان پکڑو،اورہماری روانگی کے بعداپنے گھرمیں عورتوں کے ساتھ بیٹھ کرخوب بناؤسنگھارکرتے رہنا‘‘۔ بھری محفل میں اپنے ہی دوست کے ہاتھوں اتنی بڑی عزتی …اوراتنابڑاطعنہ سننے کے بعد اُمیہ غصے سے آگ بگولہ ہوگیا…اوریوں کہنے لگا : قَبَّحَکَ اللّہ … وَقَبَّحَ مَا جِئتَ بِہیعنی’’اللہ تمہاراستیاناس کرے…اوریہ جوچیز(یعنی بناؤسنگھارکاسامان) تم اپنے ہمراہ لائے ہو ٗ اللہ اس کابھی ستیاناس کرے‘‘اورتب اتنی بڑی بے عزتی اوراتنے بڑے طعنے کے بعداس کیلئے کوئی چارہ ہی نہیں رہا…انکارکی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی… اور اسے جنگِ بدرمیں شرکت کیلئے نکلناہی پڑا۔ اُمیہ بن خلف کایہی خاص دوست(عقبہ بن ابی معیط) اسے حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ پروحشیانہ تشدداورظلم وستم پراکسایاکرتاتھا،اوراب پھراسی دوست نے ہی اُمیہ کو مسلمانوں کے خلاف اس اولین جنگ میں شرکت پرآمادہ کیاتھا…تب اُمیہ کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ وہاں ’’ بدر‘‘کے میدان میں اس کے ساتھ کیاہونے والا ہے؟اس نے توبہت کوشش کی تھی اس جنگ میں شرکت نہ کرنے کی…مگر’’جیسی کرنی ویسی بھرنی ہے ضرور‘‘ یہی قانونِ قدرت ہے ،جوکہ اٹل ہے، پتھرپرلکیرکی مانند…کہ جسے نہ کوئی بدل سکتاہے ، اورنہ ہی مٹاسکتاہے…یہی عقبہ اُمیہ کوبلالؓ کے خلاف خوب ورغلایا کرتاتھا،اوراب یہی عقبہ اُمیہ کولے چلابدرکی جانب…جہاں موت اس کی منتظرتھی، اور وہ بھی کس کے ہاتھوں …؟؟ آخرجب مسلمان اورمشرکینِ مکہ بدرکے میدان میں ایک دوسرے کے بالمقابل صف آرا ہوئے،چند انفرادی جھڑپوں کے بعدباقاعدہ جنگ کاآغازہوا،عام یلغارہوئی… معرکہ اپنے عروج کوپہنچا…تواس کے ساتھ ہی بلالؓ کاوہی نغمۂ جاوداں ’’اَحد،اَحد‘‘بھی اپنے عروج کوجاپہنچا ،آج اس رزمگاہ میں مسلسل یہی وردکرتے ہوئے بلالؓ بڑی ہی بے مثال بہادری وشجاعت کے ساتھ اللہ کے دشمنوں کے خلاف برسرِ پیکارتھے… اسی دوران اچانک بلالؓ کااُمیہ کے ساتھ آمناسامناہوگیا، وہ اُمیہ جوسداسے ہی بڑابہادر تھا، نامی گرامی شہسوارتھا…لیکن آج اسے نہ جانے کیاہواکہ بلالؓ پرنگاہ پڑتے ہی اس کے سراپاپرلرزہ طاری ہوگیا،خوف کی ایک لہراس کے تمام وجودمیں دوڑگئی،اورتب اس نے وہاں سے بھاگنے اوربچ نکلنے کی کوشش کی…لیکن اس کے پاؤں اب گویااس کاساتھ نہیں دے رہے تھے…اورتب بلالؓ کے وہی ہاتھ جن میں ایک زمانے تک اُمیہ نے ہتھکڑیاں ڈال رکھی تھیں ،ہتھکڑیوں اورزنجیروں میں مقیداپنے اس کمزور وبے بس اورلاچارغلام کووہ بدترین تشدداورظلم وستم کانشانہ بنایاکرتاتھا…آج بدرکے میدان میں بلالؓ کے انہی ہاتھوں سے …ایک ہی وارمیں فخروغروراوررعونت وتکبرسے اکڑاہوااُمیہ کاسرزمین پر آرہا … یہ ہے قانونِ قدرت…جوخوداپنی راہ بناتاہے…حضرت بلال ؓ کچھ دیراسی جگہ خاک وخون میں لت پت تکبرکے اس مجسمے کی جانب بغوردیکھتے رہے…اورپھردیوانہ واروہی ’’اَحد…اَحد‘‘کی صدابلندکرتے ہوئے وہاں سے آگے بڑھ گئے۔ ٭وقت کاسفرجاری رہا…یہاں تک کہ سن آٹھ ہجری میں ’’فتحِ مکہ‘‘کایادگارواقعہ پیش آیا،رسول اللہ ﷺ اپنے دس ہزارجاں نثاروں کے ہمراہ مکہ میں داخل ہوئے،اس موقع پرکوئی فاتحانہ شان وشوکت نہیں تھی،کوئی کبروغرورنہیں تھا،وہاں تومحض اپنے رب کی کبریائی اورحمدوثناء تھی…اسی کیفیت میں مسلسل پیش قدمی کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ سیدھے کعبۃ اللہ کے قریب پہنچے،اورپھرحضرت بلال رضی اللہ عنہ کواپنے ہمراہ لئے کعبۃ اللہ کے اندر داخل ہوگئے،شرک اورگمراہی کے جوآثاروہاں نظرآئے اُن کاصفایاکیا،اورپھرکچھ دیر بعدآپؐ نے بلالؓ کوحکم دیاکہ کعبۃ اللہ کی چھت پرجاکراذان دیں ۔ رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جب حضرت بلالؓ نے کعبۃ اللہ کی چھت پرچڑھ کراذان دینا شروع کی ’’اللہ اکبر…اللہ اکبر‘‘کی صداجب گونجی توپورے شہرمکہ پرگویاایک سکوت طاری ہوگیا،ہرچیزاپنی جگہ ساکت وجامدہوکررہ گئی،جواہلِ ایمان تھے ٗ وہ نہایت ہی ادب و خشوع کی کیفیت میں ہمہ تن گوش ہوکربلالؓ کے ساتھ اذان کے مقدس کلمات دہرارہے تھے،جبکہ مشرکین پرایک عجیب ساسکتہ طاری ہوگیاتھا،انہیں نہ تواپنی آنکھوں پریقین آرہاتھااورنہ ہی اپنے کانوں پر…ان کے زنگ آلوداورشرک زدہ دل اس حقیقت کوقبول کرنے کیلئے کسی صورت آمادہ ہی نہیں تھے کہ یہ کمزوراوربے بس مسلمان…جومحض چند سال قبل یہاں سے نہایت ہی بے بسی اوربے چارگی کے عالم میں نکلے تھے…آج یہ واپس آگئے ہیں …اورصرف واپس ہی نہیں آئے …بلکہ فاتحانہ واپس آئے ہیں … مزیدیہ کہ یہ بلال…یہ حبشی غلام…جسے ہم اسی شہرمکہ میں گلے میں رسی ڈال کردن بھر تپتی ہوئی گلیوں میں گھسیٹاکرتے تھے…آج یہ ہماری نگاہوں کے سامنے …تمام رؤسائے قریش کی موجودگی میں …کعبے کی چھت پرچڑھ کرکس قدرشانِ بے نیازی کے ساتھ ٗ اورکس طرح بے خوف وخطرہوکر…اذان دے رہاہے…اوراللہ کی وحدانیت کا اعلان کررہاہے…؟ اورپھراسی موقع پرہی جب کچھ دیربعدرسول اللہ ﷺ ان مشرکینِ مکہ کی طرف متوجہ ہوئے،اِدھراُدھرنگاہ دوڑائی…تب کیامنظرنظرآیا…؟ ہرطرف وہی پرانے چہرے … بڑے بڑے مجرم…خونی اورقاتل…وہی پرانے دشمن…آج بے بس… شرمندہ … سرجھکائے ہوئے اورنگاہیں نیچی کئے ہوئے نظرآئے…یہ وہی لوگ تھے جو آپ ﷺ کے خون کے پیاسے تھے…جانی دشمن تھے…جنہوں نے مکہ میں آپؐ کے قتل کی سازش کی…آپؐ کے ساتھیوں کے ساتھ ہرقسم کاظلم روارکھا…ہرقسم کی بدسلوکی کیلئے انہیں تختۂ مشق بنائے رکھا…آپؐ کچھ دیریونہی ان سب کی جانب دیکھتیرہے،کچھ دیر سوچوں میں ڈوبے رہے،اورپھرآپ ﷺ کی آوازگونجی،آپؐ نے اپنے ان بدترین دشمنوں اوربدخواہوں کومخاطب کرتے ہوئے یہ یادگار الفاظ کہے : لَا تَثْرِیبَ عَلَیکمُ الیَومَ… اِذھَبُو … أنتُمُ الطُّلَقَاء ۔ یعنی’’آج تم پرکوئی ملامت نہیں … جاؤ… آج تم سب آزادہو‘‘۔ آپؐ کی زبانی یہ الفاظ سن کراب ہ مزیدحیران وپریشان اورانگشت بدندان رہ گئے… اورسوچنے لگے کہ ہم سالہاسال تک کس طرح انہیں ستاتے رہے،کیاکیاظلم وستم کے پہاڑ ہم ان پرتوڑتے رہے…اورآج جب ہم مجبوروبے بس ٗ ہاتھ باندھے ہوئے اورگردنیں جھکائے ہوئے ان کے سامنے کھڑے ہیں …توانہوں نے ہم سے کوئی انتقام لینے کی بجائے یہ کیسی عجیب بات کہہ دی کہ ’’جاؤ…تم سب آزادہو‘‘ہم توسمجھ رہے تھے کہ آج یہ ہماری گردنیں اڑادینے کاحکم سنائیں گے…لیکن انہوں نے توایساکوئی حکم صادرکرنے بجائے … ایسی بات کہہ ڈالی… کہ جس سے پتھروں میں بھی دھڑکن پیداہوجائے… ٭اورپھرفتحِ مکہ ٗ غزوۂ حنین ٗ نیزغزوۂ طائف کے بعدرسول اللہ ﷺ کی مکہ سے مدینہ کی جانب واپسی ہوئی ٗتب آپؐ کے ہمراہ حضرت بلالؓ بھی واپس آئے ،یوں وقت کاسفرجاری رہا، مدینہ میں بدستوردن میں پانچ بارحضرت بلالؓ کی اذان گونجتی رہی ، دلوں میں ایمان کی حرارت بڑھاتی رہی…یہی وجہ تھی گذرتے ہوئے ہرلمحے کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے قلبِ مبارک میں بلالؓ کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوتاچلاگیا… رسول اللہ ﷺ اورحضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کے مابین یہ قلبی تعلق توبہت پہلے سے ہی تھا،جب ہجرتِ مدینہ سے بھی چندسال قبل وہاں مکی دورمیں جب اسراء ومعراج کاعظیم الشان اوریادگارسفرپیش آیاتھا،اس سفرسے واپسی کے بعدآپؐ نے بلالؓ کومخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایاتھا: یَا بِلَال! حَدِّثنِي بِأرجَیٰ عَمَلٍ عَمِلتَہٗ عِندَکَ فِي الاِسلَام ، فَاِنِّي سَمِعْتُ اللّیلَۃَ خَشْفَ نَعلَیکَ بَینَ یَدَيَّ فِي الجَنَّۃِ یعنی:’’اے بلال! قبولِ اسلام کے بعدآپ نے جوبہترین عمل انجام دیاہے مجھے اس کے بارے میں کچھ بتائیے؟کیونکہ آج رات میں نے آپ کی جوتیوں کی آوازجنت میں سنی ہے‘‘۔ اس پرحضرت بلال رضی اللہ عنہ نے جواب دیاتھا: مَا عَمِلْتُ عَمَلاً فِي الاِسلَامِ أرجَیٰ عِندِي مَنفَعَۃً ، مِن أنِّي لَا أتَطَھَّرُ طُھُوراً تَامّاً فِي سَاعَۃٍ مِن لَیلٍ وَلَا نَھَارٍ ، اِلًا صَلّیتُ بِذلِکَ الطُّھرِ مَا کَتَبَ اللّہُ لِي أن أُصَلِّي) (۱) یعنی:’’قبولِ اسلام کے بعدمیراوہ عمل جومیری نظرمیں سب سے زیادہ مفیداوربہترین ہے ٗ وہ یہ کہ رات یادن کے کسی بھی حصے میں جب بھی میں خوب اچھی طرح وضوء کرتاہوں ٗ تواس وضوء کے بعداللہ مجھے جس قدربھی توفیق عطاء فرمادے ٗمیں کچھ نمازضرورپڑھتاہوں ‘‘۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اس استفسارکے جواب میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا یہ معمول بیان فرمایا کہ رات ہویادن ٗ جب بھی میں وضوء کرتاہوں توحسبِ توفیق کچھ نہ کچھ نوافل ضرورپڑھ لیتاہوں ۔ یہی وہ عمل ہے جس کی وجہ سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کواللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بارگاہ میں اس قدربلنداورعظیم مقام ورتبہ نصیب ہواکہ رسول اللہ ﷺ نے معراج کے موقع پرجنت میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے قدموں کی آہٹ محسوس فرمائی۔یقینااس سے نوافل کی فضیلت واہمیت کے ساتھ ساتھ حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کی فضیلت ومنقبت اوررسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کاقرب اورقلبی تعلق بھی واضح وثابت ہوتاہے…کہ وہاں جنت میں بھی آپؐ نے ان کے قدموں کے آہٹ سنی… یوں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کاتعلقِ خاطرعرصۂ دراز سے اورابتدائے اسلام سے ہی چلاآرہاتھا،اورجوکہ ہرگذرتے ہوئے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط ترہوتاچلاجارہاتھا،اوراسی کیفیت میں رسول اللہ ﷺ کامبارک زمانہ گذرگیا، آپؐ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے تادمِ آخرانتہائی خوش اورمسرورومطمئن رہے۔
Top