حضرت ابوعبیدہ عامربن الجراح رضی اللہ عنہ - حضرت ابوعبیدہ عامربن الجراح رضی اللہ عنہ
رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدرصحابی حضرت ابوعبیدہ عامربن الجراح رضی اللہ عنہ کاتعلق شہرمکہ میں قبیلۂ قریش کے ایک معززخاندان سے تھا،ان کی شخصیت قدرتی وفطری طور پرانتہائی پرکشش تھی، چہرہ روشن ٗ بدن دبلاپتلا ٗاورقددرازتھا،لوگ انہیں اس دبلی پتلی اورلمبی تلوارسے مشابہ قراردیاکرتے تھے جواپنے دبلے پن کے باوجوداپنی تیزدھاراوربھرپور کاٹ کی وجہ سے دشمنوں کیلئے پیغامِ اجل ہواکرتی ہے۔ ٭مکہ شہرمیں دینِ اسلام کاسورج طلوع ہونے سے قبل ہی حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص دوستی اورقربت تھی ،دونوں میں بہت گہرے روابط تھے،چنانچہ ظہورِاسلام کے بعدحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت کے نتیجے میں ہی حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ مشرف باسلام ہوئے تھے۔ ٭حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ’’السابقین الأولین‘‘یعنی بھلائی میں سبھی لوگوں پرسبقت لے جانے والوں میں سے تھے،یعنی وہ عظیم ترین افرادجنہوں نے بالکل ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کیا کہ جب مسلمانوں کیلئے بہت ہی مظلومیت اوربے بسی وبے چارگی کازمانہ چل رہاتھا…یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کابڑامقام ومرتبہ ہے ،ان کیلئے عظیم خوشخبریاں ہیں ٗ اورانہیں قرآن کریم میں ’’السابقین الأولین‘‘کے نام سے یادکیاگیاہے۔ ٭مزیدیہ کہ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ’’عشرہ مبشرہ‘‘یعنی ان دس خوش نصیب ترین افرادمیں سے تھے جنہیں اس دنیاکی زندگی میں ہی رسول اللہ ﷺ نے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا۔ ٭قبولِ اسلام کے بعدتکالیف ٗ مصائب وآلام ٗاورآزمائشوں کادورشروع ہوا…دینِ اسلام کے اسی ابتدائی دورمیں جب مشرکینِ مکہ کی طرف سے ایذاء رسانیوں کاسلسلہ عروج پرتھا، تب نبوت کے پانچویں سال رسول اللہ ﷺ کے مشورے پر بہت سے مسلمان مکہ سے ملکِ حبشہ کی جانب ہجرت کرگئے تھے،انہی مہاجرینِ حبشہ میں حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ ٭مکی دورہو…یاہجرتِ حبشہ …اورپھرہجرتِ مدینہ کے بعدکادور…کفارِمکہ کی طرف سے اہلِ ایمان کے خلاف سازشوں اوراذیت رسانیوں کے سلسلے مختلف شکلوں میں بدستور جاری ہی رہے…ایسے میں حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ راہِ حق میں ہرقدم پراورہرموڑپر ان تمامترمصائب وآلام کابڑی خندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے…جسمانی … مالی … نفسیاتی …غرضیکہ ہرقسم کی تکالیف اورآزمائشوں کانہایت جرأ ت وبہادری کے ساتھ سامناکرتے رہے۔ ٭آخرایک ایسادن بھی آیا…کہ جب معاملہ حدسے گذرگیا…ایسی آزمائش سامنے آکھڑی ہوئی …کہ جس کاتصوربھی جان لیواہے…ہجرت کے دوسرے سال ’’بدر‘‘کے میدان میں جب حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ دشمنوں پرانتہائی بہادری ودلیری کے ساتھ جھپٹ رہے تھے…کیفیت یہ تھی کہ وہ جس طرف لپکتے اُدھردشمنوں کی صفوں کی صفیں اُلٹ جاتیں …یوں وہ مسلسل کبھی بجلی بن کردشمن پرگررہے تھے…اورکبھی قہربن کرٹوٹ رہے تھے…ایسے میں وہاں ایک ایساشخص تھاجوبارباران کے سامنے آجاتا…گویااس نے بس انہی پرنظررکھی ہوئی تھی…یہ اس سے بچتے…وہ پھرسامنے آجاتا…یہ کتراتے مگروہ پھرراستہ روک کرکھڑاہوجاتا،انہیں للکارتاکہ ’’آؤ…میراسامناکرو،ذرہ میرے ساتھ قوت آزمائی کرکے دیکھو…‘‘ آخرایک جگہ اس شخص نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کاراستہ روک لیااورباربارللکارا…اب ابوعبیدہ ؓکے پاس کوئی چارہ نہیں تھا،اس نے اپنی تلواربلندکی،ابوعبیدہ ؓنے بھی بلندکی، دونوں تلواریں پوری قوت کے ساتھ ایک دوسرے سے ٹکرائیں ،اورپھرظاہرہے کہ نتیجہ تووہی برآمدہوناتھا،یعنی ایک غالب اوردوسرامغلوب…چنانچہ ابوعبیدہؓ فاتح وغالب رہے، یوں وہ شخص ابوعبیدہؓ کے ہاتھوں ’’بدر‘‘کے میدان میں ماراگیا۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس موقع پرکتنی کوشش کی تھی اس شخص سے کترانے کی…مگراس نے تومجبورہی کردیاتھا… وہ شخص کون تھا؟ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کیلئے یہ کتنی بڑی آزمائش تھی،اگرکوئی سنے گا ، توشایدیقین نہیں کرے گا…اوراگریقین کرے گا…توپھرشایداپنے ہوش وحواس برقرار نہیں رکھ سکے گا…کیونکہ یہ شخص ابوعبیدہؓ کاباپ تھا…مشرک…دراصل ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کوقتل نہیں کیا…بلکہ ’’باطل‘‘کوقتل کیا…جواُن کے مشرک باپ کے روپ میں ان کے مقابل آکھڑاہواتھا…اورباربارانہیں للکاررہاتھا(۱) ٭سن دوہجری میں پیش آنے والے اس ’’غزوۂ بدر‘‘کے فوری بعداگلے ہی سال جب مشرکینِ مکہ اپنے لاؤ لشکرسمیت دوبارہ چلے آئے… جس کے نتیجے میں حق وباطل کے درمیان دوسرا معرکہ یعنی’’غزوۂ اُحد‘‘پیش آیا،اس موقع پرمسلمان جب اپنی ہی ایک اجتہادی غلطی کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ ہارگئے…مسلمانوں کی یقینی فتح اب شکست میں تبدیل ہوگئی…جس کی وجہ سے مسلمانوں کوبہت زیادہ پریشانی وافراتفری کاسامنا کرناپڑا…اپنی صفوں میں وہ نظم وضبط برقرارنہ رکھ سکے…کسی کوکسی کی خبرنہ رہی… باہم رابطہ براقرارنہ رہ سکا…اوروہ سب ایک دوسرے سے بے خبر…اِدھراُدھر منتشر اور سراسیمہ ہوگئے… اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرکینِ مکہ نے اپنی تمام توجہ اس جانب مرکوزکردی جہاں رسول اللہ ﷺ موجودتھے…اس نازک ترین موقع پرچندمٹھی بھرجاں نثار…جوآپؐ کے گرددیوانہ وار…تیروں اورنیزوں کی بوچھاڑکواپنے ہاتھوں اورسینوں پرروکتے ہوئے…آپؐ کی حفاظت کافریضہ انجام دے رہے تھے…انہی جاں نثاروں اور سرفروشوں میں حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ اورپھراس جنگ کے اختتام پرکیفیت یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی جبینِ اقدس پرگہرازخم آیاتھاجس سے خون بہہ رہاتھا…چنددندان مبارک شہیدہوگئے تھے…رُخِ انورپرکسی بدبخت مشرک کی تلوارکی ایسی زوردارضرب لگی تھی کہ جس کی وجہ سے زرہ کی چندکڑیاں آپؐ کے رُخسارمبارک میں پیوست ہوگئی تھیں اورکافی اندرگہرائی تک چلی گئی تھیں … تب حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے زرہ کی یہ کڑیاں آپؐ کے رخسارمبارک سے نکالنے کی بہت کوشش کی…لیکن کامیابی نہ ہوسکی…آخرانہیں مخاطب کرتے ہوئے ابوعبیدہؓ فرمانے لگے: أُقسِمُ عَلَیکَ أن تَترُکَ لِي ذَلِکَ … یعنی’’اے ابوبکر! میں آپ کواللہ کی قسم دے کرکہتاہوں کہ آپ یہ کام مجھ پرچھوڑدیجئے…‘‘ چنانچہ اب حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اسی کوشش میں مشغول ہوگئے…لیکن کوئی کامیابی نہوسکی…تب آخرانہوں نے ان کڑیوں کواپنے دانتوں سے جکڑکرپوری قوت سے کھینچا، جس کے نتیجے میں وہ کڑیاں تورسول اللہ ﷺ کے رُخسارمبارک سے باہرآگئیں …البتہ ساتھ ہی ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے سامنے کے دونوں دانت بھی ٹوٹ کرباہرآگئے… یوں حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ہمیشہ ہی رسول اللہ ﷺ کی خدمت وپاسبانی کامقدس ترین فریضہ دل وجان سے سرانجام دیتے رہے…نہایت جوش وجذبے کے ساتھ … اوراخلاص ولگن کے ساتھ آپؐ کی مجلس میں حاضری …استفادہ…اورکسبِ فیض میں ہمیشہ ہی مشغول ومنہمک رہے…
Top