حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ - کتابتِ قرآن کریم
خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی دینی خدمات میں اہم ترین اوریادگار خدمت کتابتِ قرآن کریم کیلئے مخصوص رسم الخط کی تعیین ہے ۔ اس کاپس منظرکچھ اس طرح ہے کہ قرآن کریم جوکہ عربی زبان میں ہے ،اس کے بہت سے کلمات اس طرح تحریرکئے گئے تھے کہ انہیں ایک سے زائدطریقوں سے پڑھاجاسکتاتھا،اہلِ زبان کیلئے اس میں کوئی دشواری نہیں تھی،لیکن خلیفۂ دوم اورپھرخلیفۂ سوم کے دورِخلافت میں اسلامی ریاست کی حدود بہت زیادہ وسعت اختیارکرگئیں ،غیرعرب دنیاکابہت وسیع رقبہ اسلامی مملکت میں شامل ہوا،جس کے ساتھ ہی وہاں کے باشندے بھی جوکہ غیرعرب تھے بہت بڑی تعداد میں مسلمان ہوتے چلے گئے،لہٰذاصورتِ حال یہ پیش آئی کہ قرآن کریم کے بہت سے کلمات جواس طرح تحریرکئے گئے تھے کہ انہیں ایک سے زائدطریقوں سے پڑھناممکن تھا ٗ اب غیرعرب چونکہ ان کلمات کے معنیٰ ومفہوم سے ناواقف تھے لہٰذاان کلمات کی تلاوت کے بارے میں ان میں اختلاف کی نوبت آنے لگی،کوئی ایک طرح پڑھتا…جبکہ کوئی دوسراشخص اسی کلمے کواپنی دانست کے مطابق دوسری طرح پڑھتا…ظاہرہے کہ یہ انتہائی حساس معاملہ تھا،کیونکہ یہ کسی عام کتاب کی بات نہیں تھی، بلکہ یہ توکلام اللہ کامعاملہ تھا۔ سلطنتِ فارس کے ایک دوردرازکے علاقے’’آرمینیا‘‘(۲)کے محاذپریہ معاملہ زیادہ شدت اختیارکرگیا۔کیفیت یہ ہوئی کہ سپاہی دن بھرمحاذِجنگ پردشمن کے خلاف برسرِپیکار رہتے،اورپھررات کوجب فرصت کے لمحات میسرآتے تواپنے اللہ سے لَولگاتے،دعاء ومناجات اورتلاوتِ قرآن کاسلسلہ شروع ہوجاتا…ایسے میں متعددقرآنی کلمات کے تلفظ کے حوالے سے ان میں باہم اختلاف کی نوبت آتی…اوریہ چیزان سبھی کیلئے ذہنی وفکری تشویش کاباعث بنتی…قرآن جوکہ اہلِ ایمان کواتفاق واتحادکادرس دیتاہے… اگرخوداسی قرآن کی تلاوت کے معاملے میں ہی اختلاف کی نوبت آنے لگے …توسمجھ لیناچاہئے کہ معاملہ کس قدرسنگین اورفوری توجہ طلب ہوگا… ان دنوں اُس محاذپراسلامی لشکرکی سپہ سالاری کے فرائض حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ انجام دے رہے تھے،انہوں نے اس صورتِ حال کی نزاکت کومحسوس کرتے ہوئے اس کے فوری تدارک کی ضرورت کوشدت کے ساتھ محسوس کیا،اوراسی غرض سے طویل ترین سفرکی مشقت وصعوبت برداشت کرتے ہوئے وہ مدینہ پہنچے ،جہاں انہوں نے خلیفہ ٔ وقت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کواس صورتِ حال سے مطلع کرتے ہوئے اس کے فوری تدارک کامطالبہ کیا،جس کے نتیجے میں حضرت عثمانؓ نے قرآن کریم کاایک نیانسخہ ایسے رسم الخط میں تحریرکرنے کافیصلہ کیا جس میں وہ تمام کلمات جن کی تلاوت اورتلفظ کے وقت اختلاف کی نوبت آتی تھی …غوروفکرکے بعدانہیں اس طرح تحریرکیاجائے کہ اس کے بعد اختلاف کی گنجائش باقی نہ رہے،اورانہیں فقط اسی طرح پڑھاجاسکے جس طرح پڑھنامقصودہے۔ چنانچہ اس مقصدکیلئے ہنگامی طورپراکابرصحابۂ کرام میں سے چندایسے حضرات پرمشتمل ایک لَجنہ(مجلس)تشکیل دی گئی جنہیں قرآنی علوم میں بطورِخاص بڑی دسترس اورمہارت حاصل تھی،اورپھران منتخب حضرات پرمشتمل اس مجلس کی سربراہی ونگرانی کی عظیم ترین ذمہ داری جلیل القدرصحابی حضرت زیدبن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کوسونپی ٗ جوکہ عرصۂ درازتک رسول اللہ ﷺ کے مبارک دورمیں ’’کتابتِ وحی‘‘کامقدس فریضہ انجام دیتے رہے تھے، اورجواس سے قبل خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دورمیں ’’جمعِ قرآن‘‘ کے موقع پرتشکیل دی گئی مجلس کے سربراہ کی حیثیت سے بھی بحسن وخوبی فرائض انجام دے چکے تھے۔ مزیدیہ کہ اب کتابتِ قرآن کی غرض سے مخصوص رسم الخط کی تعیین کے اس کام کی خلیفۂ وقت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بذاتِ خودبھی نہایت توجہ و انہماک کے ساتھ نگرانی کرتے رہے،بالخصوص یہ کہ آپؓ خودبھی حافظِ قرآن تھے،نیزعہدِنبوی میں عرصۂ درازتک کتابتِ وحی کی مقدس ترین خدمت بھی انجام دیتے رہے تھے،اوریہ کہ قرآن کریم کے ساتھ آپؓ کوخاص شغف بھی تھا۔ چنانچہ انتہائی عرق ریزی اورمحنتِ شاقہ کے بعدمخصوص رسم الخط متعین کیاگیا ٗجوکہ ہمیشہ کیلئے ’’رسمِ عثمانی‘‘کے نام سے معروف ہوا، نیزہمیشہ کیلئے امت کااس بات پراجماع منعقد ہوگیاکہ تاقیامت قرآنی کریم کاکوئی بھی نسخہ تحریرکرتے وقت اسی ’’رسمِ عثمانی‘‘کی پابندی لازمی ہوگی۔ یوں ’’رسمِ عثمانی‘‘کے مطابق قرآن کریم کاایک نیانسخہ تحریرکیاگیا، پھراس کی متعددنقول تیارکی گئیں ،جنہیں مختلف علاقوں اوراقالیم کی جانب ارسال کیاگیا۔ تلاوتِ قرآن جیسے اہم ترین معاملے میں مسلمانوں کواختلاف وافتراق سے بچانے اورانہیں ایک رسم الخط پرمتحدومتفق کرنے کے حوالے سے خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام یقینا’’کتاب اللہ‘‘کی بہت بڑی خدمت تھی ،جسے تاقیامت تمام امتِ مسلمہ پرعظیم احسان کے طورپرہمیشہ یادرکھاجائے گا۔
Top