نام
آیت ٨٠ کے فقرے کَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَ سے ماخوذ ہے۔
زمانہ ٴنزول
“ مضامین اور انداز بیان سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ اس سورة کا زمانہ نزول سورة ابراہیم سے متصل ہے۔ اس کے پس منظر میں دو چیزیں بالکل نمایاں نظر آتی ہیں۔ ایک یہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت دیتے ایک مُدّت گزر چکی ہے اور مخاطب قوم کی مسلسل ہٹ دھرمی، استہزا، مزاحمت اور ظلم و ستم کی حد ہوگئی ہے، جس کے بعد اب تفہیم کا موقع کم اور تنبیہ کا موقع زیادہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اپنی قوم کے کفر و جحود اور مزاحمت کے پہاڑ توڑتے توڑتے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھکے جا رہے ہیں اور دل شکستگی کی کیفیت بار بار آپ پر طاری ہو رہی ہے، جسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دے رہا ہے اور آپ کی ہمت بندھا رہا ہے۔
موضوع اور مرکزی مضمون
یہی دو مضمون اس سورة میں بیان ہوئے ہیں۔ یعنی تنبیہ ان لوگوں کو جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا انکار کر رہے تھے اور آپ کا مذاق اڑاتے اور آپ کے کام میں طرح طرح کی مزاحمتیں کرتے تھے۔ اور تسلی وہمت افزائی آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سورة تفہیم اور نصیحت سے خالی ہے۔ قرآن میں کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے مجرد تنبیہ، یا خالص زجر و توبیخ سے کام نہیں لیا ہے۔ سخت سے سخت دھمکیوں اور ملامتوں کے درمیان بھی وہ سمجھانے اور نصیحت کرنے میں کمی نہیں کرتا۔ چناچہ اس سورة میں بھی ایک طرف توحید کے دلائل کی طرف مختصر اشارے کیے گئے ہیں، اور دوسری طرف قصہ آدم و ابلیس سنا کر نصیحت فرمائی گئی ہے۔