تعارف
اس سورة میں پہلے اس جذبہ شکر کی تعبیر ہے جو اللہ تعالیٰ کی پروردگاری، اس کی بےپایاں رحمت اور اس کائنات کے نظام میں اس کے قانونِ عدل کے مشاہدات سے ایک سلیم الفطرت انسان پر طاری ہوتا ہے یا طاری ہونا چاہئے۔ پھ اس جذبہ شکر سے خدا ہی کی بندگی اور اسی سے استعانت کا جو جذبہ ابھرتا ہے یا ابھرنا چاہئے اس کو تعبیر کیا گیا ہے، پھر اس جذبہ کی تحریک سے جو مزید طلب و جستجو ہدایت و رہنمائی کے لیے پیدا ہوتی ہے یا پیدا ہونی چاہیے، وہ ظاہر کی گئی ہے۔ (ب) ۔ سورة کا اسلوب :۔ اس سورة کا اسلوب دعائیہ ہے۔ لیکن انداز کلام مخاطب کو سکھانے کا نہیں ہے کہ وہ یوں دعا کرے بلکہ اصل دعا ہماری زبان پر طاری کردی گئی ہے جس سے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہورہا ہے کہ اگر ہماری فطرت سلیم ہے تو ہماری زبان سے ہمارے دل کا ترانہ حمد یوں نکلنا چاہئے۔ چونکہ یہ تعبیر اسی خدا کی بخشی ہوئی ہے جو ہماری فطرت کا بنانے والا ہے اس وجہ سے اس سے زیادہ سچی تعبیر کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہر سلیم الفطرت انسان اس کو اپنے ہی دل کی آواز سمجھتا ہے۔ صرف وہی لوگ اس سے کوئی بیگانگی محسوس کرسکتے ہیں جنہوں نے اپنی فطرت بگاڑ لی ہو۔