تعارف
سورة فاتحہ کے اسمائے گرامی اور ان کی وجۂ تسمیہ
مقام نزول : مکہ معظمہ، ایک رکوع، آیات سات، الفاظ پچیس اور حروف ایک سو تینتیس ہیں۔
رسول مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سورة فاتحہ کے کئی نام منقول ہیں جن میں سے مشہور نام یہ ہیں :
١۔ فاتحۃ الکتاب : قرآن حکیم کا آغاز اور دنیا وآخرت کے حقائق کے انکشاف کا سر چشمہ۔ (بخاری ومسلم)
٢۔ اُمّ القرآن : قرآن مجید کے عناوین و مضامین کا مرقع۔ (مسلم، سنن نسائی)
٣۔ الشفاء : جسمانی بیماریوں کا علاج، روحانی پریشانیوں کا تریاق۔ (الاتقان)
٤۔ السبع المثانی : نماز میں باربار پڑھی جانے والی سات آیات مقدّسات۔ (القرآن) (بخاری : کتاب التفسیر)
فاتحہ اور قرآن مجید کے مضامین
قرآن مجید کے مضامین میں پہلا مرکزی مضمون توحید ہے اور فاتحہ کی ابتدا ہی توحید سے ہوتی ہے۔ توحید میں سب سے پہلے اللہ کی ذات، اس کی صفات کا ادراک اور اقرار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہمہ جہت اور ہمہ گیر صفات میں سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ کائنات کا رب ہے جس کے معانی خالق، رازق، مالک اور بادشاہ کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی مہربان نہایت ہی رحم کرنے والا ہے۔
قرآن حکیم کا دوسرا مضمون یہ ہے کہ اس جہاں کے علاوہ اور بھی جہاں ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اس دنیا میں تمہارا خالق، مالک، رازق اور بادشاہ ہے اور وہ تمہیں مارنے کے بعد آخرت میں زندہ کرکے اپنی عدالت عظمیٰ میں طلب کرے گا۔ اس دن ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا دے گا۔ وہ عادل ومنصف اور حاکم مطلق ہے اور اس کا سارا نظام عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ قرآن مجید میں دنیا وآخرت کے بارے میں عدل و انصاف اور جزاء وسزا کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔
تیسرا مضمون : جس کو قرآن عبادت کا نام دے کر اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے تقاضا کرتا ہے کہ بندے کا اپنے رب کے ساتھ تعلق طالب و مطلوب، عابد و معبود اور مخلوق و خالق، محکوم وحاکم کا ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر زندگی گزارنے کا کوئی دوسرا طریقہ ٹھیک نہیں۔ یہی انسان کی زندگی کا مقصد ہے۔ اس لیے اپنے رب کی عبادت کرنا اور اسی سے ہی مدد طلب کرنا چاہیے کیونکہ اس کے اذن اور امر کے بغیر کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔
چوتھا مضمون صراط مستقیم ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ بندے کو اپنے رب کے احکام و ارشادات کے مطابق زندگی گزارنا چاہیے۔ صراط مستقیم کا تعیّن فرماتے ہوئے قرآن مجید اس کی تشریح اور تقاضے بیان کرتے ہوئے وضاحت کرتا ہے کہ یہ انعام یافتہ انبیاء، شہداء، صدیقین اور صالحین کا راستہ ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک تمام انبیاء ( علیہ السلام) اسی راستے کی دعوت دیتے رہے۔ اس کے بغیر نہ کوئی صراط مستقیم ہے اور نہ ہی کوئی طریقۂ حیات قابل قبول ہوگا۔ اس سے نبوت کی ضرورت و اہمیت از خود عیاں ہوجاتی ہے۔ کیونکہ محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ میں ہی عبادات، معاملات کا طریقہ اور اخلاقیات کے تمام تقاضے پورے ہوتے ہیں اور یہی صراط مستقیم ہے۔
پانچواں مضمون : قرآن مجید سورة فاتحہ کی زبان میں انعام یافتہ، مغضوب اور گمراہ لوگوں کے حوالے سے قوموں کے عروج وزوال بیان کرتا ہے تاکہ سمع و اطاعت اور تسلیم ورضاکا رویّہ اختیار کرنے والوں کو بہترین انجام اور ان کا مرتبہ و مقام بتلایا جائے، باغیوں اور نافرمانوں کو ان کے انجام سے ڈرایاجائے۔ قرآن مجید کے باقی ارشادات و احکامات انہی مضامین کی تفصیلات اور تقاضے ہیں اور یہی قرآن کا پیغام ہے۔ اسی بنیاد پر سورة الحمد کو فاتحہ اور ام الکتاب کا نام دے کر اس کو کتاب مبین کی ابتداء میں رکھا گیا ہے۔ ادبی زبان میں ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں :
* فاتحہ ابتدا ہے * قرآن اس کی تکمیل * فاتحہ دعا ہے * قرآن اس کا جواب
* فاتحہ عنوان ہے * قرآن اس کا مضمون * فاتحہ خلاصہ ہے * قرآن اس کی تفصیل
* فاتحہ پھول ہے * قرآن اس کی خوشبو ہے * فاتحہ دروازہ ہے * قرآن اس کا محل ہے
فاتحہ کی فضیلت
( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قالَ بَیْنَمَا جِبْرِیْلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَمِعَ نَقِیْضًا مِّنْ فَوْقِہٖ فَرَفَعَ رَأْسَہٗ فَقَالَ ہٰذَا بَابٌ مِّنَ السَّمَآءِ فُتِحَ الْیَوْمَ لَمْ یُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ فَنَزَلَ مِنْہُ مَلَکٌ فَقَالَ ہٰذَا مَلَکٌ نَزَلَ إِلَی الْأَرْضِ لَمْ یَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ فَسَلَّمَ فَقَالَ أَبْشِرْ بِنُوْرَیْنِ أُوْتِیْتَھُمَا لَمْ یُؤْتَھُمَا نَبِیٌّ قَبْلَکَ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَخَوَاتِیْمِ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِّنْھُمَا إِلَّا أُعْطِیْتَہٗ ) (رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب فضل الفاتحۃ)
” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت جبرئیل (علیہ السلام) رسول اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران انہوں نے اوپر سے ایک زور دار آواز سنی اور اپنا سر اٹھا کر فرمایا کہ آسمان کا جو دروازہ آج کھولا گیا ہے یہ اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا۔ اس دروازے سے ایک فرشتہ نازل ہوا یہ ایسا فرشتہ ہے جو آج ہی زمین پر نازل ہوا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں اترا۔ پھر اس فرشتے نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا اور کہا دو نوروں کی خوشخبری سنیے ! یہ دونوں نور آپ ہی کو عطا کیے گئے ہیں اور آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے۔ ایک فاتحۃ الکتاب اور دوسرا سورة البقرۃ کی آخری آیات۔ آپ ان دونوں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے تو آپ کی مانگی مراد پوری ہوجائے گی۔ “
فاتحہ کی فرضیت
(قَال اللّٰہُ تَعَالٰی قَسَمْتُ الصَّلٰوۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ وَلِعَبْدِیْ مَاسَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ أَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ قَال اللّٰہُ تَعَالٰی حَمِدَنِیْ عَبْدِیْ وَإِذَا قَال الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قَال اللّٰہُ أَثْنٰی عَلَیَّ عَبْدِیْ وَإِذَا قَالَ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ قَالَ مَجَّدَنِیْ عَبْدِیْ وَقَالَ مَرَّۃً فَوَّضَ إِلَیَّ عَبْدِیْ فَإِذَا قَالَ إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ قَالَ ہٰذَا بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَاسَأَلَ فَإِذَا قَالَ إِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمََغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ قَالَ ہٰذَا لِعَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ ) (رواہ مسلم : کتاب الصلوۃ، باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ)
” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز کو میں نے اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کرلیا ہے۔ میرے بندے کے لیے وہ کچھ ہے جو اس نے مانگا۔ جب بندہ کہتا ہے ” أَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ “ اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف کی۔ جب بندہ کہتا ہے ” اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ “ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد و ستائش کی۔ جب بندہ کہتا ہے۔ ” مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ “ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی کا اقرار کیا۔ ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے میرے بندے نے اپنے کام کو میرے سپرد کردیا۔ جب بندہ عرض کرتا ہے :” إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ “ تو اللہ فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کا معاملہ ہے۔ میں نے اپنے بندے کو عطا کیا جو اس نے مانگا۔ جب بندہ درخواست کرتا ہے۔”إِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمََغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ “ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ چیز مل جائے گی جس کا اس نے سوال کیا۔ “
فاتحہ کی عظمت
(قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَآ أُنْزِلَتْ فِی التَّوْرَاۃِ وَلَا فِی الْإِنْجِیْلِ وَلَا فِی الزَّبُوْرِ وَلَا فِی الْفُرْقَانِ مِثْلَھَا وَإِنَّھَا سَبْعٌ مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنُ الَّذِیْ أُعْطِیْتُہٗ )[ رواہ الترمذی : فضائل القرآن، باب ماجاء فی فضل فاتحۃ الکتاب ]
” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اس سورت جیسی کوئی سورة تورات، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں نازل نہیں ہوئی۔ یقینًا یہ بار بار پڑھی جانے والی سات آیات ہیں اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔ “
فاتحہ اور نماز
(قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَاصَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ) (رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب وجوب القرأۃ للإمام والمأموم في الصلوات کلھا)
” رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جس نے فاتحہ نہیں پڑھی۔ “
x
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
(کُلُّ اَمْرٍ ذِیْ بَالٍ لَایُفْتَحُ بِذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَہُوَ اَبْتَرُ اَوْقَالَ اَقْطَعُ ) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب باقي المسند السابق ]
” جس کام کی ابتدا اللہ کے ذکر سے نہ کی جائے وہ بےبرکت اور نامکمل ہے۔ “
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق ہر کام کی ابتدا بسم اللہ یعنی اللہ کے اسم مبارک سے کرنا چاہیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت مبارکہ اور ارشاد ات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر کام کی ابتدا بسم اللہ سے کرنے سے مراد بسم اللہ کے الفاظ پڑھنا نہیں بلکہ کام اور موقع کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور اس کا نام لینا ہے تاکہ اس اسم مبارک سے ابتدا کرتے ہوئے کام اور موقع کا احساس آدمی کو رب کریم کے قریب کردے جیسا کہ سونے اور نیند سے بیدار ہونے کے وقت دعا کے الفاظ احساس دلاتے ہیں کہ نیند اور بیداری، موت اور زندگی کی طرح آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی کو ایسے ہی مرنا اور اٹھنا ہوگا۔ جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینے سے تصور ابھرتا ہے کہ بڑائی اور کبریائی اللہ کی ذات کو زیبا ہے۔ یہ اللہ کا مال ہے اس پر کسی غیر کا نام لینے کی بجائے صرف مالک حقیقی کا نام ہی لینا چاہیے۔ قرآن مجید میں یہی حکم دیا گیا ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا کرو۔ سواری پر برا جمان ہوتے ہوئے لفظ ” سُبْحَانَ الَّذِیْ “ سے دعا کا آغاز کرتے ہوئے یہ خیال آنا چاہیے کہ جس مالک نے اس کو میرے تابع کیا ہے مجھے بھی اس ذات کبریا کا تابع فرمان ہونا چاہیے۔ سواری کو حاصل اور مطیع کرنا میرے بس کا روگ نہیں تھا۔ قرآن مجید کی تلاوت سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے :
(فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ۔ )[ النحل : ٩٨]
” جب قرآن مجید کی تلاوت شروع کرو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو۔ “
ثابت ہے کہ موقع کی مناسبت سے ہر کام کا آغاز رب کریم کے مبارک نام سے ہونا چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں یہ فلسفہ پایا جاتا ہے کہ جب کوئی کام شروع کیا جائے تو اس پر اللہ کا نام لیتے ہوئے احساس پیدا ہو کہ جو کام کرنا چاہتا ہوں وہ میرے لیے جائز بھی ہے یا نہیں۔ اگر کام حرام اور ناجائز ہو تو مومن کو اللہ کے نام کی لاج رکھتے ہوئے اس کام سے باز آنا چاہیے۔ جائز کام کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھنے سے آدمی کا عقیدہ تازہ اور پختہ ہوجائے گا کہ اس کام کی ابتدا رحمن ورحیم کی مہربانی کا نتیجہ ہے اور اس کی تکمیل بھی اس کے کرم کا صلہ ہے۔
” بسم اللہ “ ہر سورة کا حصہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں میرا رجحان ان دلائل کی طرف ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ہر سورت کا حصہ نہیں اس سے سورت کی ابتدا ہونے کے ساتھ دو سورتوں میں فرق کا پتہ چلتا ہے البتہ سورة فاتحہ اور سورة النمل کی آیت ٩٨ ہونے کے حوالے سے یہ قرآن مجید کا جز و ہے۔
(عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَایَعْرِفُ فَصْلَ السُّوْرَۃِ حَتّٰی تُنْزَلَ عَلَیْہِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) (رواہ ابوداؤد : کتاب الصلاۃ، باب من جھر بھا)
” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورت کے فرق کو نہیں سمجھ سکتے تھے یہاں تک کہ ” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ “ نازل ہوئی۔ “
(إذا قرأتم الحمد للہ فاقرء وابسم اللہ الرحمن الرحیم إنہا أمالقرآن و أم الکتاب و السبع المثانی وبسم اللہ الرحمن الرحیم إحداہا) (السلسۃ الصحیحۃ : ١١٨٣)
” جب تم سورة فاتحہ کی قراءت کرو تو اس کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کرو یہ ام القرآن اور ام الکتاب اور باربار پڑھی جانے والی ہے، اور بسم اللہ الرحمن الرحیم اس کی آیات میں سے ایک ہے۔ “
۔۔ نماز میں فاتحہ سے لکھنا ہے
اسم ” اللہ “ کی خصوصیت
” اللہ “ کا نام صرف اور صرف خالق کائنات کی ذات کو زیبا اور اس کے لیے مختص ہے۔ یہ اس کا ذاتی نام ہے اس اسم مبارک کے اوصاف اور خواص میں سے ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ کائنات میں انتہادرجے کے کافر، مشرک اور بدترین باغی انسان گزرے ہیں اور ہوں گے۔ جن میں اپنے آپ کو داتا، مشکل کشا، موت وحیات کا مالک کہنے والے حتی کہ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰٰیکہلوانے والا بھی ہوا ہے۔ مگر اس نام کی جلالت وہیبت کی وجہ سے اپنے آپ کو ” اللہ “ کہلوانے کی کوئی جرأت نہیں کرسکا اور نہ کرسکے گا۔ مکہ کے مشرک اپنے بتوں کو سب کچھ مانتے اور کہتے تھے لیکن وہ بتوں کو ” اللہ “ کہنے کی جرأت نہیں کرسکے تھے۔ ” اللہ “ ہی انسان کا ازلی اقرار اور اس کی فطری آواز ہے جس بنا پر ہر کام ” بِسْمِ اللّٰہ “ سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ اسم مبارک اپنے آپ میں خالقیت، مالکیت، جلالت وصمدیت، رحمن ورحیمیت کا ابدی اور سرمدی تصور لیے ہوئے ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کا نام 2697 مرتبہ آیا ہے۔ ایمان کی تازگی کے لیے چند مقامات تلاوت کیجیے۔
1 ۔ اللہ ہی خالق ہے :
(اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ ) (الزمر : ٦٢)
2 ۔ اللہ ہی رازق ہے :
(إِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ ) (الذاریات : ٥٨)
3 ۔ اللہ ہی معبود حقیقی ہے :
(شَھِدَ اللّٰہُ أَنَّہٗ لَآاِلٰہَ إِلَّا ھُوَ ) (آل عمران : ١٨)
4 ۔ اللہ ہی اقتدار، زوال اور عزت وذلّت کا مالک ہے :
(قُلِ اللّٰھُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُضِلُّ مَنْ تَشَآءُ ) (آل عمران : ٢٦)
5 ۔ اللہ ہی حاکم مطلق اور خالق کل ہے :
(اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ) (الأعراف : ٥٤)
6 ۔ اللہ ہی مالک اور ہر چیز پر قادر ہے :
(تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔ ) (الملک : ١)
7 ۔ اللہ ہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے :
(أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْ ءَ ) (النمل : ٦٢)
8 ۔ اللہ ہی اول وآخر اور ظاہر و باطن ہے :
(ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ ) (الحدید : ٣)
9 ۔ اللہ ہی غیب اور ظاہر کو جانتا ہے :
(عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ ) (الحشر : ٢٢)
0 ۔ اللہ ہی موت وحیات پر اختیار رکھنے والا ہے :
(اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ ) (الملک : ٢)
!۔ اللہ ہی زمین و آسمان کا نور ہے :
(اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ ) (النور : ٣٥)
@۔ اللہ ہی ہدایت دینے والا ہے :
(وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم۔ ) (البقرۃ : ٢١٣)
#۔ اللہ ہی مومنوں کا دوست ہے :
(اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) (البقرۃ : ٢٥٧)
$۔ اللہ ہی کفار کو گھیرنے والا ہے :
(وَاللّٰہُ مُحِیْطٌ م بالْکَافِرِیْنَ ) (البقرۃ : ١٩)
%۔ اللہ ہی قیامت کے دن کا مالک ہے :
(مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) (الفاتحۃ : ٣)