بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ الأنعام - تعارف
تعارف
تعارف سورة الانعام بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ نمبر 6 رکوع 20 آیات 165 الفاظ وکلمات 3100 حروف 12935 مقام نزول مکہ مکرم ٰ 60 آیات مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ ٭خصوصیت : یہ سورة ایک ہی رات میں ستر ہزار فرشتے لے کر نازل ہوئے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم انعام ” نعم “ کی جمع ہے (یعنی جانور) مویشی ‘ چوپائے جانوروں کو کہا جاتا ہے۔ اس سورة کے سولہویں ستر ھویں رکوع میں بعض جانوروں کے حلال و حرام ہونے کو بیان کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں کفار کہ کے بعض توہمات کو بھی دور کیا گیا ہے جو عرب میں عا م تھے۔ اسی لیے اس سورة کا نام ” الانعام “ رکھا گیا ہے۔ اگرچہ یہ سوۃ مکی کلاتی ہے مگر اس میں وہ ساٹھ آیتیں بھی شامل ہیں جو مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں بقیہ ایک سو پانچ آیتیں ہجرت سے کچھ پہلے مکہ مکرمہ نازل ہوئیں۔ اس سورة کی ایک خصویت یہ ہے کہ اس سورة کی ایک سو پانچ آیتیں ایک ہی رات میں نازل ہوئیں جنہیں اسی رات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھنے کا حکم دیا۔ متعدد احادیث میں اس سورة کے نازل ہونے کی ایک بہت بڑی شان بیان فرمائی گئی ہے۔ احدیث میں آتا ہے کہ جس رات پر سورة نازل ہوئی اس رات زمین سے آسمان تک نور ہی نور پھیلا ہوا تھا۔ تمام فرشتے اللہ کی حمد وثناء کررہے تھے۔ ان کی تسبیحات کی گونج سے زمین و آسمان میں ایک عجیب سا سماں تھا۔ اسی دوران ستر ہزار فرشتے اس سورة کو لے کر نازل ہوئے۔ وہ اللہ کی تسبیح کررہے تھے اور اللہ کو سجدے کررہے تھے۔ فرشتوں کی تسبیح اور سجدوں سے زمین و آسمان منور تھے۔ یہاں تک کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اللہ کی تسبیح کرتے ہوئے سجدے میں چلے گئے۔ احادیث میں اس سورة کی بہت سی فضیلتیں آئی ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو شخص سورة الانعام کی پہلی تین آیتوں کی تلاوت کرے گا اللہ تعالیٰ ایسے چالیس فرشتوں کو نازل فرمائے گا جو عبادت کریں گے جس کا ثواب اس شخص کو بھی عطا کیا جاتا رہے گا جو اس کی تلاوت کرے گا فرشتے اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہوئے اللہ کی رحمتوں کو اس شخص پر نازل کرتے رہیں گے۔ جو شخص اس سورة کو پڑھتا ہے تو ایک فرشتہ آسمان سے اترتا ہے جس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے۔ شیطان اگر پڑھنے والے کے دل میں وسوسہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو فرشتہ اس گرز سے شیطان کی خبر لیتا ہے اور شیطان اور اس کے درمیان ستر حجاب (پردے) ڈال دیئے جاتے ہیں۔ اس سورة کو پڑھنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے کہ اے میرے بندے تو میرے نور کے سائے میں چل ‘ جنت کے پھلوں سے لذت حاصل کر ‘ حوض کوثر سے پانی پی ‘ اور نہر سلسبیل میں غسل کر تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا پروردگار ہوں۔ اس سورة کا مرکزی مضمون توحید و رسالت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دور جہالت میں کفار ایسے تو ہمات اور فضولیات میں مبتلا تھے جن توہمات کی تردید کی گئی ہے جن کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے۔ اہل ایمان کو کفار کے ظلم و ستم کے مقابلے میں تلی اور جنت کی بشاری دی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ زندگی کے ان بنیادی اصولوں کو بیان فرمایا گیا جو انسان کو زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔ ٭کفار نے بہت سی چیزوں کو خود ہی حرام اور حلال کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حقیقت میں جو چیزیں حرام اور ناجائز ہیں ان پر تم غور نہیں کرتے اور دوسری فضول بحثوں میں الجھے ہوئے ہو۔ فرمایا کہ اللہ نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے (١) اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک قرار دینا (٢) والدین سے بد سلوکی کرنا۔ (مفلسی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنا حرام ہے کیونکہ رازق تو اللہ ہے۔ (٤) چھپے ہوئے یا ظاہری گناہ کے کام کرنا (٥) کسی کو ناحق قتل کرنا (٦) یتیم بچے کے مال کو کھاجانا (٧) ماپ تول میں کمی کرنا (٨) وعدے کا پورا نہ کرنا۔ (٩) جب گواہی دینے کا وقت آجائے تو اس سے پیچھے ہٹ جانا (١٠) اللہ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے سے ہٹ کر غلط اور گمراہی کے راستے پر چلنا یہ سب ناجائز باتیں ہیں ان سے بچنا ہر صاحب ایمان کے لیے ضروری ہے۔
Top