تعارف
تعارف سورة الصف
سورة نمبر 61
کل رکوع 2
آیات 14
الفاظ و کلمات 223
حروف 991
مقام نزول مدینہ منورہ
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے فرمایا ہے کہ تم دنیا کی جس تجارت میں لگے ہوئے ہو اس سے بہتر یہ ہے کہ تم اپنے جان و مال کو اللہ کے راستے میں لگا دو اور وہ یہ ہے کہ تم پوری طرح اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر اس پر مضبوطی سے صراط مستقیم پر قائم رہو اور اپنی جانوں اور مال سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اس کے بدلے اللہ تمہیں دنیا میں فتح و نصرت اور آخرت میں جنت کی راتیں عطا فرمائے گا وہ جنت جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہوگی۔
٭ حضرت عیسیٰ کے حواریوں کا قصہ بیان کرتے ہوئے ارشاد ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو دین اسلام کی طرف بلایا اور ان سے کہا کہ تم اللہ کے لئے اس کے دین کے مددگار بن جائو۔ دعوت دینے کے بعد جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں سے پوچھا کہ تم میں سے اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے کون کون میرا ساتھ دے گا ؟ تو ان سب نے کہا کہ ہم سب اللہ کے دین کے مددگار ہیں۔ ان حواریوں کی محنت سے اس زمانہ میں دین اسلام کو فروغ حاصل ہوا۔ کچھ لوگ ایمان لے آئے اور کچھ نے انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں زبردست تائید کی اور وہی غالب ہو کر رہے۔
٭اللہ کی حمدو ثنا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اس کی حمدو ثنا اور تسبیح نہ کرتی ہو۔ ذرہ ذرہ اس کی تسبیح میں لگا ہوا ہے۔
٭اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آدمی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جو کچھ زبان سے کہتا ہے اس کو پورا کرتا ہے لیکن یہ ایک بدترین عادت ہے کہ آدمی جس بات کو زبان سے کہہ رہا ہے اس پر اسی طرح عمل نہیں کرتا۔ منافقین کی عادت ہے کہ وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ اللہ کو یہ بات قطعاً ناپسند ہے۔
٭اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اہل ایمان جب کسی سے جنگ کرتے ہیں تو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں یعنی اپنی صفوں کو درست رکھتے ہیں۔
٭حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم مجھے اپنی باتوں سے اذیت اور تکلیف کیوں پہنچاتے ہو ؟ جب کہ میں خود اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں۔ بنی اسرائیل نے ان کی باتوں کو ماننے کے بجائے اپنے دلوں کو اوندھا کرلیا تو اللہ نے بھی ان کے مزاجوں کو اس طرح الٹ دیا کہ سیدھی بات بھی ان کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔
٭حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کا ذکر خیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ انہوں نے بھی اپنی قوم بنی اسرائیل سے یہی فرمایا کہ میں اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں۔ مجھ سے پہلے اللہ نے تمہاری ہدایت کے لئے توریت نازل کی تھی میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اور میرے بعد جو رسول تشریف لانے والے ہیں ان کا نام ” احمد “ ہوگا۔ ابنی اسرائیل نے ان کی تمام باتوں کو سن کر اور معجزات کو دیکھ کر ایک بےحقیقت جادو قرار دیا۔
٭فرمایا کہ اللہ کے دین کا انکار کرنے والے ظالم لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے جس روشنی
یعنی دین اسلام کو بھیجا ہے یہ اس کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔ ان کی تو یہی خواہش ہے کہ یہ چراغ بجھ جائے اور دین اسلام کی ترقی کو روک دیں لیکن یہ محض ان کی تمنا ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ وہ ہے جو ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے وہ اس روشنی کو مکمل کرکے رہے گا اگرچہ یہ کافر کتنے ہی ناراض کیوں نہ ہوں۔ وہ اللہ اپنی قدرت سے ان کے سارے ارادوں اور عزائم کو ناکام بنا کر رکھ دے گا۔
٭اللہ نے اپنے نبی حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی لئے بھیجا ہے کہ وہ دین اسلام کو ہر مذہب پر پوری طرح غالب کردیں اور وہ غالب ہو کر رہے گا۔
٭اہل ایمان سے فرمایا گیا ہے کہ تم دنیا کی جس تجارت میں لگے ہوئے ہو اس سے بہتر ہے کہ تم اپنی جان اور اپنے مال کو اللہ کے راستے میں لگا دو اور وہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پوری طرح ایمان لائو۔ مضبوطی سے صراط مستقیم پر قائم رہو اور اپنی جانوں اور مالوں کو اللہ کے راستے میں جہاد پر لگا دو ۔ اگر تم غور کرو گے تو یہ سودا اور لین دین تمہیں مہنگا نہیں پڑے گا۔ اسی میں تمہارے لئے بہتری ہے۔ کیونکہ تمہیں آخرت میں اتنا کچھ نفع عطا کیا جائے گا جس کا تم اس دنیا میں رہ کر تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ تمہاری ان قربانیوں کے بدلے میں ایسی جنتیں دی جائیں گی جن کی ہر چیز کو بقا ہے اور تم ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہو گے۔ فرمایا کہ تمہاری قربانیوں کا صلہ آخرت میں جنت اور اس کی راحتیں ہیں اور دنیا میں فتح و نصرت اور کامیابیاں ہیں جو تمہیں بہت جلد دیدی جائیں گی۔