تعارف
سورت نمبر ١۔ کل رکوع ١۔ ٓآیات ٧۔ الفاظ وکلمات ٢٧۔ حروف ١٤٠۔ مقام نزول۔ مکہ مکرمہ
قرٓن کریم میں ١١٤ سورتیں ہیں جن کے نام اللہ کے حکم سے آپ نے تجویز فرمائے۔ ہر سورت کا جو بھی نام تجویز فرمایا ہے، وہ لفظ ان سورتوں میں موجود ہے۔ جیسے بقرہ آل عمران، نساء وغیرہ، لیکن قرآن کریم کی دو سورتیں ایسی ہیں ، جن کے نام رکھے گئے ہیں، اور ناموں کا کوئی لفظ ان سورتوں میں موجود نہیں، وہ دو سورتیں الفاتحہ اور اخلاص ہیں۔
تعارف سورة فاتحہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نزول قرآن کی ابتداء میں تھوڑی تھوڑی آیات نازل ہوا کرتی تھیں، سب سے پہلے مکہ مکرمہ میں جو مکمل سورت نازل ہوئی وہ سورة فاتحہ ہے۔ قرآن کریم کی ابتداء بھی اسی سورت سے کی گئی ہے جس کی احادیث میں بہت فضیلتیں آئی ہیں۔
حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے سورة فاتحہ جیسی صورت نہ توریت ، انجیل اور زبور میں ہے اور نہ (اس سے پہلے) قرآن کریم میں نازل ہوئی ہے۔ یہ وہی سبع مثانی (بار بار پڑھی جانے والی سات آیات ) ہیں جو اللہ نے مجھے عطا فرمائی ہیں (ترمذی)
حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھی۔ حضرت جبرئیل بھی آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک ایک دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ حضرت جبرئیل نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ وہ دروازہ ہے جو آج پہلی بار کھلا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں کھلا تھا راوی بیان کرتا ہے کہ اتنے میں ایک فرشتہ آسمان سے نازل ہوا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو ایسے دونوروں کی خوشخبری ہو جو آپ سے پہلے کسی کو نہیں دئیے گئے۔ ایک سورة فاتحہ دوسرے سورة بقرہ۔ ان دونوں میں سے اگر ایک حرف بھی پڑھیں گے تو وہ نور آپ کو دے دیا جائے گا (صحیح مسلم )
حضرت انس (رض) نے فرمایا ہے کہ سورة فاتحہ افضل قرآن ہے (بیہقی ۔ حاکم )
حضرت عبد اللہ ابن جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” جابر (رض) کیا میں تمہیں ایک ایسی سورت نہ بتاؤں جو اللہ تعالیٰ نے (بڑی عظمتوں کے ساتھ ) نازل کی ہے۔ حضرت جابر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضرور ارشاد فرمائیے۔ آپ نے فرمایا وہ سورة فاتحہ ہے “ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ سورت ہر مرض کے لئے شفاء ہے ۔ (مسند احمد)
اسی طرح عبد الملک بن عمر (رض) سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فاتحۃ الکتاب ہر مرض کی شفا ہے۔ (مسند احمد۔ دارمی۔ بیہقی)
مذکورہ احادیث اور ان کے علاوہ بیشمار روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورة فاتحہ قرآن کریم کی وہ اہم ترین سورت ہے۔ جو سارے قرآن کریم کے مضامین کا خلاصہ اور نچوڑ ہے۔
یہ سورت اس قرآن کا خلاصہ ہے جو تمام آسمانی علوم کا سرچشمہ اور انسانی زندگی کی رہبری اور رہنمائی کے اصولوں کو مجموعہ ہے۔
سورة فاتحہ کی اہمیت اور اس کے مضامین کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ امت کے بڑے بڑے علماء مفسرین نے سورة فاتحہ کی آیات پر غور کیا تو انہوں نے اس سورت کی تشریح لکھنا شروع کی اور سیکڑوں صفحات لکھتے چلے گئے۔ مگر ان کی زبانوں پر یہی بات تھی کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ در حقیقت سورة فاتحہ ایک ایسے گہرے سمندر کی طرح ہے جس کی گہرائی اور تہہ کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ بہت سے علماء امت، مفسرین اور محققین نے اس سمندر کی گہرائی میں اتر کر اپنی ہمت کے مطابق موتی جمع کرنے کی کوشش کی ۔ زندگیاں بیت گئیں لیکن اس گہرے سمندر کی تہہ میں موتی ختم نہ ہوئے اور اسی بات کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ :
قرآن وہ ہے جس کے عجائب (حقائق ) کبھی ختم نہ ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سورة فاتحہ کی حقیقی معرفت نصیب فرمائے، اور اس کے انوارات سے ہمارے دلوں اور دماغوں کو روشن ومنور فرمائے، آمین ثم آمین ۔
سورة فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء، اس کی ذات کی خوبیاں، احسان اور کرم کا اعتراف ہے، ایک ایسے انصاف کے دن کا یقین ہے جس میں ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا دی جائے گی۔ اسی کی مخلصانہ عبادت و بندگی اور زندگی کے ہر مرحلے پر اسی سے مدد طلب کی جائے۔ اس کے بعد اللہ سے راہ ہدایت اور تلاش حق کی آرزو ہے، اس میں رسالت کی عظمت کے ساتھ اللہ کے پیغمبروں اور نیک ہستیوں کی پیروی اور اتباع، برے لوگوں کے برے اعمال سے بیزاری کا اظہار ہے اور ان لوگوں کے راستے پر نہ چلنے کی عاجزانہ درخواست ہے جن پر اللہ کا غصہ اور غضصب نازل ہوا۔ یا جو لوگ صحیح راستے بھٹک کر اپنی منزل تک نہ پہنچ سکے۔
سورة فاتحہ کی اسی اہمیت کی وجہ سے اس کو ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے ” لاصلوٰۃ الا بفاتحۃ الکتب “ یعنی اس وقت تک نماز نہیں ہو سکتی جب تک اس میں سورة فاتحہ نہ پڑھی جائے۔ اسی وجہ سے کوئی بھی نماز ہو فرض ، واجب ، سنت یا نفل اس کی ہر رکعت میں سورة فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ اگر کسی وجہ سے سورة فاتحہ پڑھنا بھول جائے تو سجدہ سہو کرنے سے اس کی نماز ہوجائے گی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے (آواز سے یا خاموشی سے ) تو مقتدی کو امام کے پیچھے سورة فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے کیوں کہ امام قراءت مقتدی کی قراءت ہوا کرتی ہے لیکن کوئی شخص خود سے تنہا نماز پڑھ رہا ہے تو اس کو سورة کا پڑھنا واجب ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی۔
قرآن کریم کی جتنی سورتیں ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے دو چار نام بتائے ہیں لیکن سورة فاتحہ کے اتنے زیادہ نام ہیں کہ ناموں کی کثرت اس سورت کی عظمت کی دلیل ہے۔ علامہ سیوطی (رح) نے ” الاتقان فی علوم القرآن میں سورة فاتحہ کے پچیس نام گنوائے ہیں۔ سورة فاتحہ کے چند نام یہ ہیں۔
(سورۃ الحمد) وہ سورت جس میں اللہ تعالیٰ کی بےانتہا حمد و ثنا اور خوبیوں کا ذکر ہے۔
(ام القران ) وہ سورت جو قرآن کریم کے بنیادی اور اہم اصولوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
(سورۃ الشفا) وہ سورت جس سے روحانی اور جسمانی شفا اور صحت حاصل ہوتی ہے۔
(سورۃ الکنز) وہ سورت جو قرآن کریم کے ابدی اصولوں کا انمول خزانہ ہے۔
(سورۃ الاساس ) وہ سورت جس کے بغیر قرآن کریم کی بنیادوں کو سمجھنا مشکل ہے۔
(سورۃ الکافیہ) وہ سورت جو تمام لوگوں کی رہبری اور رہنمائی کے لئے کافی ہے۔
(سورۃ الصلوٰۃ) وہ سورت جس میں دعا اور صراط مستقیم کی طلب پائی جاتی ہے۔
(سورۃ المسئلۃ ) وہ سورت جس میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اپنے اللہ سے مانگنے کا سلیقہ سکھایا ہے۔
(سورۃ الدعاء) وہ سورت جس میں ہدایت کی دعا مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔
(سورۃ التوحید ) وہ سورت جس میں اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کی گئی ہے۔
(سورۃ السبع المثانی ) وہ سورت جس میں سات آیتیں ہیں جن کو بار بار پڑھا جاتا ہے۔
خلاصہ سورة الفاتحہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سورة فاتحہ جو قرآن کریم کی ساری تعلیمات کا خلاصہ اور نچوڑ ہے اس میں سات آیات ہیں۔
اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور خاص طور پر اس کی چار صفات (خوبیوں ) کو بیان فرمایا گیا ہے۔
رب العالمین الرحمن الرحیم ملک یوم الدین
یعنی اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دست قدرت سے جن چیزوں کو بھی پیدا کیا ہے اور انہیں خوبصورت اور حسین بنا کر ان میں اپنے جمال، جلال اور کمال کے رنگ بھر دئیے ہیں۔ ایک بندہ ان کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے اللہ یہ سب کچھ آپ ہی کا کرم اور احسان ہے۔ آپ ہی خالق، مالک ، رازق اور ہر طرح کی خوبیوں کے پیدا کرنے والے ہیں۔ ہم ہر آن آپ کی حمد و ثنا کرتے ہیں ۔ ہم آپ کی اس شان کریمی کی تعریف کرتے ہیں کہ آپ نے ایک ایسا عدل و انصاف کا دن مقرر کیا ہے جس میں ہر شخص کو اس کے تمام اچھے اور برے اعمال کی جزا اور سزا دی جائے گی اور کسی کے ساتھ کوئی بےانصافی نہیں کی جائے گی۔ لہٰذا اے اللہ ہم آپ ہی کی عبادت و بندگی کرتے ہیں ۔ ہم آپ ہی سے اپنی مرادوں کو مانگتے ہیں۔ آپ ہی دینے والے ہیں ہم نہ تو آپ کے درچھوڑ کر کسی اور در پر جائیں گے اور نہ کسی اور کے سامنے اپنی پیشانی کو جھکائیں گے اور ہر حال میں صرف آپ سے اپنی مرادیں مانگیں گے کیوں کہ آپ کے سوا دوسرا کوئی معبود اور مشکل کشا نہیں ہے۔
اور اے اللہ ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں وہ سیدھا اور سچا راستہ دکھادیجئے جس پر چل کر آپ کے بندے آپ کے انعام وکرم کے مستحق بن گئے ۔ لیکن اے اللہ ہمیں ان بدقسمت اور گمراہ لوگوں کے راستے پر نہ چلا دئیے گا جو آپ کے غضب کا شکار ہوگئے یا جو لوگ راستے پر چلتے چلتے بھٹک گئے اور اپنے ہاتھوں سے انہوں نے اپنی منزل کھو دی۔ ” آمین “
سورة فاتحہ کے ایک ایک لفظ میں عظمتوں کے خزانے بھرے ہوئے ہیں جن کا ترجمہ اور تشریح کر کے بھی ان کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن سمجھنے سمجھانے کے لئے سورة فاتحہ کے سولہ الفاظ کی مختصر تشریح اور ترجمہ ملاحظہ کرلیجئے۔
(اللہ): یہ لفظ ” الہ “ سے بنا ہے جس کے معنی معبود کے آتے ہیں۔ عربی قاعدے کے مطابق اس لفظ میں سے الف (ہمزہ) کو گرا کر ” الف لام “ داخل کردیا گیا ہے تو یہ لفظ ” اللہ “ بن گیا۔
اللہ۔ اسم ذات ہے یعنی اللہ وہ ہے کہ جس کی ذات اور صفات میں کوئی شریک نہیں ہے۔ نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوا۔ نہ کوئی اس کے برابر ہے۔ وحدہ لا شریک ہے۔ اسی طرح وہ تمام نظام کائنات چلانے میں بھی کسی کا محتاج نہیں ہے۔ وہی سب کا خالق ، مالک اور آقا ہے، نعمت ، ہدایت اور سب کا رزق اسی کے دست قدرت میں ہے۔ وہ سب کا مشکل کشا اور دستگیر ہے، سب کی توبہ قبول کرنے والا، اپنے بندوں پر بےانتہا مہربان ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اگر کوئی اللہ کی ذات اور صفات میں کسی کو کسی طرح بھی شریک کرتا ہے تو وہ مشرک ہے۔ اور شرک اللہ کے ہاں ناقابل معافی جرم ہے۔ قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ اللہ نے کسی مشرک اور ظالم قوم کو ڈھیل دینے کے باوجود جب اپنے عذاب میں پکڑا ہے تو پھر اس سے چھڑانے والا کوئی نہیں تھا۔ جب وہ مشرک اور ظالم قوموں کو مٹانے پر آتا ہے تو ان کو اس طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے کہ ان کے کھنڈرات بھی باقی نہیں بچتے۔ وہ اپنے نیک بندوں پر کرم فرماتا ہے تو انہیں دنیا اور آخرت میں ہر طرح کی نعمتوں سے نواز دیتا ہے۔