تعارف
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بنی اسرائیل
سورة نمبر 17
رکوع 12
آیات 111
الفاظ و کلمات 1582
حروف 6710
مقام نزول مکہ مکرمہ
تمام علماء مفسرین نے فرمایا ہے۔ اس واقعہ کو اسراء اور معراج فرمایا گیا ہے۔ کیونکہ سب سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصی (بیت المقدس) تک لے جایا گیا اس کو اسراء کہتے ہیں۔ پھر مسجد اقصی سے بارگاہ رب العالمین تک کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسراء اور معراج دونوں بیداری کی حالت میں عطا کی گئیں۔
یہ سورة مکہ مکرمہ کے آخری دور میں نازل کی گئی جب کفار و مشرکین کے ظلم وستم کی انتہا ہوچکی تھی ۔ اس سورت میں توحید و رسالت، اسلام کی حقانیت، قیامت ، آخرت، جنت وجہنم اور کفر و شرک کے برے انجام اور اچھے برے اعمال کی جزا وسزا کا ذکر فرمایا گیا ہے۔
سورت کے مختصر الفاظ میں امت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیامت تک دنیا کی امامت سپرد کیے جانے اور بنی اسرائیل کی مسلسل نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو ان کے مقام سے باقاعدہ معزول کرنے کی طرف واضح اشارات فرمائے گئے ہیں۔
اس سورت کی ابتدا معراج مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کر کے بنی اسرائیل کی تاریخ کے اہم پہلوؤں کو نہایت مختصر اور جامع طریقہ پر بیان کیا گیا ہے۔ زندگی کے اہم ترین بنیادی اصولوں کا ذکر کر کے بتایا گیا ہے کہ ایک انسان کو صحیح راہ ہدایت اسی وقت مل سکتی ہے جب وہ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔
بنی اسرائیل کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ انہوں نے انبیاء کرام کا راستہ چھوڑ کر دنیا پرستی کے ہر طریقے اور انداز کو اختیار کرلیا تھا۔ اسی لئے اس سورت میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کو باقاعدہ منصب امامت پر فائز کر کے بنی اسرائیل کی قیادت کو معزول کرنے کے واضح اشارات کئے گئے ہیں۔
اس سورة کی ابتداء اسراء یا معراج سے کی گئی ہے تاکہ بنی اسرائیل اور تمام مذاہب کے پیروکاروں کو اس بات کا اچھی طرح احسان دلایا جائے کہ اب انسانیت کی معراج اور سربلندی اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہی پوشیدہ ہے کیونکہ اس سے زیادہ انسانیت کی سربلندی کا اور کوئی تصور ممکن نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کلیم اللہ ہیں مگر کوہ طور تک محدود ہیں لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے ایک باعزت مہمان کی حیثیت سے براق پر حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل کے ساتھ یاد فرمایا۔ پھر اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ بلند مقام عطا فرمایا جہاں اللہ کے سب سے مقرب فرشتے جبرائیل نے بھی آگے جانے سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں اس مقام سے آگے نہیں جاسکتا اگر میں نے ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو تجلی الٰہی میرے پروں کو جلا کر راکھ کر دے گی۔ پھر اللہ نے رف رف سواری بھیج کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے قریب بلایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلام فرمایا۔
امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ خواب کی حالت نہ تھی بلکہ مکمل بیداری میں آپ کو اسراء اور معراج عطا فرمایا گیا۔
سفر معراج کا ذکر کرنے کے بعد بنی اسرائیل کی ایک طویل ترین تاریخ کو نہایت مختصر الفاظ میں ذکر کر کے بتایا گیا ہے کہ ہزاروں خطاؤں اور نافرمانیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو عزت اور سربلندی کے اعلیٰ ترین مقامات تک پہنچایا تھا لیکن احکامات الٰہی کی وہ مسلسل نافرمانی کرتے رہے جس کی وجہ سے ان کو ہزاروں ذلتیں بھی نصیب ہوئیں اور طاقتور قوموں نے ان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ اس کا سبب یہی تھا کہ انہوں نے انبیاء کرام کے راستے کو چھوڑ کر کفر و شرک کے طریقوں کو اختیار کرلیا تھا۔
اس سورة میں بنی اسرائیل کو اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ اب اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول اور آخری کتاب آگئی ہے اگر اس کا بھی انکار کیا گیا اور نبی مکرم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و فرماں برداری نہ کی گئی تو اس قوم کو ایسی ذلتوں سے واسطہ پڑے گا جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ فرمایا گیا کہ یہ قرآن کریم صراط مستقیم کی طرف لے جانے والا ہے جس میں دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں پوشیدہ ہیں۔
اس سورة میں چند ایسے ضروری احکامات بیان کئے گئے ہیں جن پر عمل کرنے سے انساین معاشرہ ہزاروں خرابیوں سے پاک ہو سکتا ہے اور کسی بھی معاشرے کی کامیاب بنیادیں عطا کی گئی ہیں۔ وہ اصول یہ ہیں۔
١- اللہ کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہ کرنا اور شرک کے ہر انداز سے بچنا۔
٢- والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔
٣- رشتہ داروں، غریبوں، ضرورت مندوں اور مسافروں کے ساتھ حسن معاملہ کرنا۔
٤- فضول خرچی سے بچنا مال کو احتیاط سے خرچ کرنا، سخاوت ہو لیکن کنجوسی اور بخل سے بچنا۔
٥- مفلسی اور غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرنا کیونکہ یہ ایک بدترین جرم ہے۔
٦- فرمایا کہ زنا کے قریب بھی مت جانا ورنہ بد ترین راستے کھل جائیں گے۔
٧- انسانی جان قابل احترام ہے کسی حال میں قتل ناحق کی اجازت نہیں ہے۔
٨- یتیم بچے جب تک سعور کی عمر کو نہ پہنچ جائیں اس وقت تک سوائے احسن طریقے کے ان کے مال کے قریب بھی نہ جانا۔
٩- ہر طرح کے عہد اور معاہدے کی پابندی کرنا۔
١٠- ماپ تول اور لین دین میں ہر طرح کی ناجائز حرکتوں سے بچنا۔
١١- جس بات کی تحقیق نہ ہو اس بات کے پیچھے نہ پڑنا اور ہر طرح کی بدظنی اور الزام لگانے سے بچنا۔
١٢- ہر طرح کے تکبر، غرور اور بڑائی کے انداز اور زمین پر اکڑنے اور اترانے سے بچنا۔
١٣- کفر و شرک سے بچنا اور صرف اللہ ہی کی عبادت و بندگی کرنا۔
١٤- مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر یقین رکھنا۔
١٥- اللہ، اس کے رسول اور دین کے بنیادی اصولوں کے مقابلے میں کفر و شرک، ضد، ہٹ دھرمی پر نہ جمنا کیونکہ یہ شیطانی وسوسہ ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔
اس سورة میں حضرت نوح کا ذکر کر کے فرمایا گیا کہ اللہ نے کسی بستی کو بلا وجہ برباد نہیں کیا ب ل کہ جب انہوں نے انبیاء کرام کی تعلیمات کا انکار کیا اس سے منہ موڑ اور دنیا پرستی کو غلاب کرلیا تو پھر اللہ کا فیصلہ آگیا اور اس قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ حضرت موسیٰ کے بعض معجزات کا ذکر کر کے فرمایا کہ انہوں نے کس طرح فرعون کو للکارا اور جب فرعون نے اللہ کے دین کا مسلسل انکار کیا تو اس کو اس کے لشکر کو اور اس کی سلطنت کو غرق کردیا۔
فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا تاکہ اس کو اچھی طرح سمجھا جاسکے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پروردگار کا پیغام پہنچا دیجیے آپ کا کام مکمل ہوجائے گا۔ اگر اس پر عمل کیا گیا تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دین و دنیا میں وہ کامیابیاں عطا فرمائے گا جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔