تعارف
تعارف سورة الواقعہ
یہ سورت مکی زندگی کے ابتدائی دور کی سورتوں میں سے ہے، اور اس میں معجزانہ فصاحت و بلاغت کے ساتھ پہلے تو قیامت کے حالات بیان فرمائے گئے ہیں، اور بتایا گیا ہے کہ آخرت میں تمام انسان اپنے انجام کے لحاظ سے تین مختلف گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے، ایک گروہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کا ہوگا جو ایمان اور عمل صالح کے لحاظ سے اعلی ترین مرتبے کے حامل ہیں، دوسرا گروہ ان عام مسلمانوں کا ہوگا جنہیں ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے، اور تیسرا گروہ ان کافروں کا ہوگا جن کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے، پھر ان تینوں گروہوں کو جن حالات سے سابقہ پیش آئے گا اسکی ایک جھلک بڑے مؤثر انداز میں دکھائی گئی ہے، اس کے بعد انسان کو خود اس کے اپنے وجود اور ان نعمتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اسی کا شکر بجالاکر اسکی وحدانیت کا اعتراف کرے، اور توحید پر ایمان لائے، پھر آخری رکوع میں قرآن کریم کی حقانیت کا بیان فرماتے ہوئے انسان کو اس کی موت کا وقت یاد دلایا گیا ہے کہ اس وقت وہ کتنا ہی بڑا آدمی سمجھا جاتا ہو، نہ تو خود اپنی موت سے چھٹکارا پاسکتا ہے نہ اپنے کسی محبوب کو موت سے بچاسکتا ہے، لہذا جو پروردگار موت اور زندگی کا مالک ہے وہی مرنے کے بعد بھی انسان کے انجام کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے، اور انسان کا کام یہ ہے کہ اس کی عظمت کے آگے سر بسجود ہو۔
سورت کی پہلی ہی آیت میں واقعہ کا لفظ آیا ہے جس سے مراد قیامت کا واقعہ ہے اور اسی کے نام پر اس سورت کو سورة واقعہ کہا جاتا ہے۔