صحيح البخاری
باب: کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
اللہ تعالیٰ کا قول کہ ان کے معاملات آپس کے مشورے سے طے پاتے ہیں، اور ہر کام میں ان لوگوں سے مشورہ لو، اور اس امر کا بیان کہ مشورہ عزم سے پہلے ہے اور اصل حال ظاہر ہونے سے پہلے ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب آپ عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، جب رسول اللہ ﷺ عزم کرلیں تو کسی بشر کو یہ حق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف کرے اور نبی ﷺ نے جنگ کے دن اپنے صحابہ سے مدینہ میں ٹھہر کر جنگ کرنے اور نکل کر جنگ کرنے کے متعلق مشورہ کیا، لوگوں نے نکل کر ہی جنگ کرنے کو مناسب خیال کیا، جب آپ نے اپنی زرہ پہن لی اور ارادہ کرلیا تو لوگوں نے کہا کہ مدینہ میں ٹھہرنا ہی مناسب ہے، لیکن آپ نے عزم کرلینے کے بعد ان کی طرف توجہ نہ کی اور فرمایا کہ کسی نبی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ زرہ پہن کر اتار دے جب تک کہ اللہ تعالیٰ حکم نہ دیں اور آپ نے علی اور اسامہ ؓ سے عائشہ ؓ پر تہمت لگائے اجنے کے سلسلہ میں مشورہ کیا اور ان کی باتیں آپ نے سنیں یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا تو آپ نے تہمت لگانے والوں کو کوڑے لگوائے اور ان کے اختلاف کی طرف متوجہ نہ ہوئے، بلکہ وہی فیصلہ کیا جس کا اللہ نے آپ کو حکم دیا اور نبی ﷺ کے بعد ائمہ (خلفاء) ایماندار اہل علم سے مباح امور میں مشورہ لیتے تھے تاکہ ان میں جو آسان ہو اسے اختیار کریں اور اگر کتاب یا سنت اس کو واضح کردیتی تو نبی ﷺ کی اقتداء کرتے ہوئے دوسروں کی طرف متوجہ نہ ہوتے، اور حضرت ابوبکر ؓ نے ان لوگوں سے جہاد کا ارادہ کیا جنہوں نے زکوٰۃ روک دی تھی، تو عمر ؓ نے کہا کہ آپ کیونکر جہاد کریں گے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہہ دیں، جب وہ لوگ لا الہ الا اللہ کہہ دیں تو ان لوگوں نے ہم سے اپنا خون اور اپنا مال محفوظ کرلیا، سوائے حق اسلام کے، تو حضرت ابوبکر ؓ نے کہا خدا کی قسم میں اس سے جہاد کروں گا جس نے اس چیز کے درمیان تفریق کی جس کو رسول اللہ ﷺ نے جمع کیا ہے، پھر عمر ؓ بھی ان کے ہم خیال ہوگئے، ابوبکر مشورہ کی طرف متوجہ نہیں ہوئے اس لئے کہ ان کے پاس ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا اور دین اور اس کے احکام کو بدلنا چاہا رسول اللہ ﷺ کا حکم موجود تھا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اپنا دین بدل ڈالا تو اس کو قتل کردو اور قراء خواہ وہ بوڑھے تھے یا جوان، حضرت عمر ؓ کے مشیر تھے اور اللہ بزرگ و برتر کی کتاب (کے حکم) کے نزدیک وہ لوگ رک جانے والے تھے۔
7369
اللہ تعالیٰ کا قول کہ ان کے معاملات آپس کے مشورے سے طے پاتے ہیں، اور ہر کام میں ان لوگوں سے مشورہ لو، اور اس امر کا بیان کہ مشورہ عزم سے پہلے ہے اور اصل حال ظاہر ہونے سے پہلے ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب آپ عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، جب رسول اللہ ﷺ عزم کرلیں تو کسی بشر کو یہ حق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف کرے اور نبی ﷺ نے جنگ کے دن اپنے صحابہ سے مدینہ میں ٹھہر کر جنگ کرنے اور نکل کر جنگ کرنے کے متعلق مشورہ کیا، لوگوں نے نکل کر ہی جنگ کرنے کو مناسب خیال کیا، جب آپ نے اپنی زرہ پہن لی اور ارادہ کرلیا تو لوگوں نے کہا کہ مدینہ میں ٹھہرنا ہی مناسب ہے، لیکن آپ نے عزم کرلینے کے بعد ان کی طرف توجہ نہ کی اور فرمایا کہ کسی نبی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ زرہ پہن کر اتار دے جب تک کہ اللہ تعالیٰ حکم نہ دیں اور آپ نے علی اور اسامہ ؓ سے عائشہ ؓ پر تہمت لگائے اجنے کے سلسلہ میں مشورہ کیا اور ان کی باتیں آپ نے سنیں یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا تو آپ نے تہمت لگانے والوں کو کوڑے لگوائے اور ان کے اختلاف کی طرف متوجہ نہ ہوئے، بلکہ وہی فیصلہ کیا جس کا اللہ نے آپ کو حکم دیا اور نبی ﷺ کے بعد ائمہ (خلفاء) ایماندار اہل علم سے مباح امور میں مشورہ لیتے تھے تاکہ ان میں جو آسان ہو اسے اختیار کریں اور اگر کتاب یا سنت اس کو واضح کردیتی تو نبی ﷺ کی اقتداء کرتے ہوئے دوسروں کی طرف متوجہ نہ ہوتے، اور حضرت ابوبکر ؓ نے ان لوگوں سے جہاد کا ارادہ کیا جنہوں نے زکوٰۃ روک دی تھی، تو عمر ؓ نے کہا کہ آپ کیونکر جہاد کریں گے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہہ دیں، جب وہ لوگ لا الہ الا اللہ کہہ دیں تو ان لوگوں نے ہم سے اپنا خون اور اپنا مال محفوظ کرلیا، سوائے حق اسلام کے، تو حضرت ابوبکر ؓ نے کہا خدا کی قسم میں اس سے جہاد کروں گا جس نے اس چیز کے درمیان تفریق کی جس کو رسول اللہ ﷺ نے جمع کیا ہے، پھر عمر ؓ بھی ان کے ہم خیال ہوگئے، ابوبکر مشورہ کی طرف متوجہ نہیں ہوئے اس لئے کہ ان کے پاس ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا اور دین اور اس کے احکام کو بدلنا چاہا رسول اللہ ﷺ کا حکم موجود تھا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اپنا دین بدل ڈالا تو اس کو قتل کردو اور قراء خواہ وہ بوڑھے تھے یا جوان، حضرت عمر ؓ کے مشیر تھے اور اللہ بزرگ و برتر کی کتاب (کے حکم) کے نزدیک وہ لوگ رک جانے والے تھے۔
7370
Top