سنن الترمذی - نیکی و صلہ رحمی کا بیان - حدیث نمبر 1988
حدیث نمبر: 1988
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: و سَمِعْت عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ يَذْكُرُ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ سُفْيَانَ، قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ: الظَّنُّ ظَنَّانِ: فَظَنٌّ إِثْمٌ، وَظَنٌّ لَيْسَ بِإِثْمٍ، فَأَمَّا الظَّنُّ الَّذِي هُوَ إِثْمٌ فَالَّذِي يَظُنُّ ظَنًّا وَيَتَكَلَّمُ بِهِ، وَأَمَّا الظَّنُّ الَّذِي لَيْسَ بِإِثْمٍ فَالَّذِي يَظُنُّ وَلاَيَتَكَلَّمُ بِهِ.
بدگمانی کے بارے میں
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - سفیان کہتے ہیں کہ ظن دو طرح کا ہوتا ہے، ایک طرح کا ظن گناہ کا سبب ہے اور ایک طرح کا ظن گناہ کا سبب نہیں ہے، جو ظن گناہ کا سبب ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کے بارے میں گمان کرے اور اسے زبان پر لائے، اور جو ظن گناہ کا سبب نہیں ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کے بارے میں گمان کرے اور اسے زبان پر نہ لائے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ٤٥ (٥١٤٣)، والأدب ٥٧ (٦٠٦٤)، و ٥٨ (٦٠٦٦)، والفرائض ٢ (٦٧٢٤)، صحیح مسلم/البر والصلة ٩ (٢٥٦٣)، سنن ابی داود/ الأدب ٥٦ (٤٩١٧) (تحفة الأشراف: ١٣٧٢٠)، و مسند احمد (٢/٢٤٥، ٣١٢، ٣٤٢، ٤٦٥، ٤٧٠، ٤٨٢) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اسی حدیث میں بدگمانی سے بچنے کی سخت تاکید ہے، کیونکہ یہ جھوٹ کی بدترین قسم ہے اس لیے عام حالات میں ہر مسلمان کی بابت اچھا خیال رکھنا ضروری ہے سوائے اس کے کہ کوئی واضح ثبوت اس کے برعکس موجود ہو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (417)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1988
Sayyidina Abu Hurairah (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said, ‘Shun misgivings. Indeed, misgiving is the most false kind of conversation.” [Bukhari 6066]
Top