سنن الترمذی - نیکی و صلہ رحمی کا بیان - حدیث نمبر 1939
حدیث نمبر: 1938
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّهِأُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عُقْبَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ لَيْسَ بِالْكَاذِبِ مَنْ أَصْلَحَ بَيْنَ النَّاسِ فَقَالَ خَيْرًا أَوْ نَمَى خَيْرًا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
آپس میں صلح کرانا
ام کلثوم بنت عقبہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور وہ (خود ایک طرف سے دوسرے کے بارے میں) اچھی بات کہے، یا اچھی بات بڑھا کر بیان کرے ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلح ٢ (٢٦٩٢)، صحیح مسلم/البر والصلة ٣٧ (٢٦٠٥)، سنن ابی داود/ الأدب ٥٨ (٤٩٢٠) (تحفة الأشراف: ١٨٣٥٣)، و مسند احمد (٦/٤٠٤) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: لوگوں کے درمیان صلح و مصالحت کی خاطر اچھی باتوں کا سہارا لے کر جھوٹ بولنا درست ہے، یہ اس جھوٹ کے دائرہ میں نہیں آتا جس کی قرآن و حدیث میں مذمت آئی ہے، مثلاً زید سے یہ کہنا کہ میں نے عمر کو تمہاری تعریف کرتے ہوئے سنا ہے وغیرہ، اسی طرح کی بات عمر کے سامنے رکھنا، ایسا شخص جھوٹا نہیں ہے، بلکہ وہ ان دونوں کا محسن ہے، اور شریعت کی نظر میں اس کا شمار نیک لوگوں میں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (1196)، الصحيحة (545)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1938
Sayyidah Umm Kuithum bint Uqbah (RA) reported having heard from Allah’s Messenger ﷺ . “One who lies to reconcile people thereby is not a liar. Rather, he is speaker of good, or promoter of good.” [Bukhari 2692, Muslim 2605]
Top