سنن الترمذی - نماز کا بیان - حدیث نمبر 390
حدیث نمبر: 391
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ الْأَسَدِيِّ حَلِيفِ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِي صَلَاةِ الظُّهْرِ وَعَلَيْهِ جُلُوسٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَتَمَّ صَلَاتَهُ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ سَجْدَةٍ وَهُوَ جَالِسٌ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَسَجَدَهُمَا النَّاسُ مَعَهُ مَكَانَ مَا نَسِيَ مِنَ الْجُلُوسِ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ.
سلام سے پہلے سجدہ سہو کرنا
عبداللہ ابن بحینہ اسدی ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم نماز ظہر میں کھڑے ہوگئے جب کہ آپ کو بیٹھنا تھا، چناچہ جب نماز پوری کرچکے تو سلام پھیرنے سے پہلے آپ نے اسی جگہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کئے، آپ نے ہر سجدے میں اللہ اکبر کہا، اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدہ سہو کیے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- ابن بحینہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف ؓ سے بھی حدیث آئی ہے، ٣- محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ابوہریرہ اور عبداللہ بن سائب قاری ؓ دونوں سہو کے دونوں سجدے سلام سے پہلے کرتے تھے، ٤- اور اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے اور شافعی کا بھی یہی قول ہے، ان کی رائے ہے کہ سجدہ سہو ہر صورت میں سلام سے پہلے ہے، اور یہ حدیث دوسری حدیثوں کی ناسخ ہے کیونکہ نبی اکرم کا عمل آخر میں اسی پر رہا ہے، ٥- اور احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ جب آدمی دو رکعت کے بعد کھڑا ہوجائے تو وہ ابن بحینہ ؓ کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے، ٦- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ عبداللہ ابن بحینہ ہی عبداللہ بن مالک ہیں، ابن بحینہ کے باپ مالک ہیں اور بحینہ ان کی ماں ہیں، ٧- سجدہ سہو کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے کہ اسے آدمی سلام سے پہلے کرے یا سلام کے بعد۔ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اسے سلام کے بعد کرے، یہ قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے، ٨- اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اسے سلام سے پہلے کرے یہی قول اکثر فقہاء مدینہ کا ہے، مثلاً یحییٰ بن سعید، ربیعہ وغیرہ کا اور یہی قول شافعی کا بھی ہے، ٩- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد کرے اور جب کمی رہ گئی ہو تو سلام سے پہلے کرے، یہی قول مالک بن انس کا ہے، ١٠- اور احمد کہتے ہیں کہ جس صورت میں جس طرح پر سجدہ سہو نبی اکرم سے مروی ہے اس صورت میں اسی طرح سجدہ سہو کرنا چاہیئے، وہ کہتے ہیں کہ جب دو رکعت کے بعد کھڑا ہوجائے تو ابن بحینہ ؓ کی حدیث کے مطابق سلام سے پہلے سجدہ کرے اور جب ظہر پانچ رکعت پڑھ لے تو وہ سجدہ سہو سلام کے بعد کرے، اور اگر ظہر اور عصر میں دو ہی رکعت میں سلام پھیر دے تو ایسی صورت میں سلام کے بعد سجدہ سہو کرے، اسی طرح جس جس صورت میں جیسے جیسے رسول اللہ کا فعل موجود ہے، اس پر اسی طرح عمل کرے، اور سہو کی جس صورت میں رسول اللہ سے کوئی فعل مروی نہ ہو تو اس میں سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے۔ ١ ١- اسحاق بن راہویہ بھی احمد کے موافق کہتے ہیں۔ مگر فرق اتنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ سہو کی جس صورت میں رسول اللہ سے کوئی فعل موجود نہ ہو تو اس میں اگر نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد سجدہ سہو کرے اور اگر کمی ہوئی ہو تو سلام سے پہلے کرے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ١٤٦ (٨٢٩)، و ١٤٧ (٨٣٠)، والسہو ١ (١٢٢٥)، و ٥ (١٢٣٠)، والأیمان والنذور ١٥ (٦٦٧٠)، صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٠)، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٠٠ (١٠٣٤)، سنن النسائی/التطبیق ١٠٦ (١١٧٨)، والسہو ٢٨ (١٢٦٢)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٣١ (١٢٠٦، ١٢٠٧)، ( تحفة الأشراف: ٩١٥٤)، موطا امام مالک/الصلاة ١٧ (٦٥)، مسند احمد (٣٤٥٥، ٣٤٦) سنن الدارمی/الصلاة ١٧٦ (١٥٤٠) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: (حديث عبد اللہ ابن بحينة) صحيح، (حديث محمد بن إبراهيم) صحيح الإسناد، إن کان ابن إبراهيم - وهو التيمي المدني - لقي أبا هريرة والسائب وهو ابن عمير .، ابن ماجة (1206 و 1207)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 391
Sayyidina Abdullah ibn Buhaynah (RA) al-Asadi, an ally of Banu Abdul Muttalib, reported that the Prophet ﷺ stood up in a salah of zuhr while he ought to have observed julus (the first sitting). When he completed the salah, he made two prostrations, raising the takbir in each while he was yet sitting down and had not yet made the salutation. The people prostrated with him. This was in compensation of the julus that he had forgotten.
Top