سنن الترمذی - نذر اور قسموں کا بیان - حدیث نمبر 1524
حدیث نمبر: 1524
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةٍ،‏‏‏‏ وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ وَجَابِرٍ،‏‏‏‏ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ لِأَنَّ الزُّهْرِيَّ لَمْ يَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ أَبِي سَلَمَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ:‏‏‏‏ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَتِيقٍ،‏‏‏‏ عَنْ الزُّهْرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَرْقَمَ،‏‏‏‏ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ مُحَمَّدٌ،‏‏‏‏ وَالْحَدِيثُ هُوَ هَذَا.
اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کی صورت میں نذر مانناصحیح نہیں۔
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: معصیت کے کاموں میں نذر جائز نہیں ہے، اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ زہری نے اس کو ابوسلمہ سے نہیں سنا ہے، ٢ - میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس حدیث کو کئی لوگوں نے روایت کیا ہے، انہیں میں موسیٰ بن عقبہ اور ابن ابی عتیق ہیں، ان دونوں نے زہری سے بطریق: «سليمان بن أرقم عن يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة عن عائشة عن النبي صلی اللہ عليه وسلم» روایت کی ہے، محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: وہ حدیث یہی ہے (اور آگے آرہی ہے) ، ٣ - اس باب میں ابن عمر، جابر اور عمران بن حصین ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأیمان ٢٣ (٣٢٩٠-٣٢٩٢)، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٦ (٢١٢٥)، سنن النسائی/الأیمان ٤١ (٣٨٦٥-٣٨٧٠) (تحفة الأشراف: ١٧٧٧٠)، و مسند احمد (٦/٢٤٧) (صحیح) (ملاحظہ ہو: الإرواء رقم: ٢٥٩٠ )
وضاحت: ١ ؎: یعنی معصیت کی نذر پوری نہیں کی جائے گی، البتہ اس میں قسم کا کفارہ دینا ہوگا، نذر کی اصل انذار ہے جس کے معنی ڈرانے کے ہیں، امام راغب فرماتے ہیں کہ نذر کے معنی کسی حادثہ کی وجہ سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینے کے ہیں، قسم کے کفارے کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے: «لا يؤاخذکم اللہ باللغو في أيمانکم ولکن يؤاخذکم بما عقدتم الأيمان فکفارته إطعام عشرة مساکين من أوسط ما تطعمون أهليكم أو کسوتهم أو تحرير رقبة فمن لم يجد فصيام ثلاثة أيام ذلک کفارة أيمانکم إذا حلفتم» اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا لیکن مواخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو موکد کر دو، اس کا کفارہ دس مساکین کو اوسط درجہ کا جو خود کھاتے ہیں وہ کھانا کھلا نا یا کپڑے پہنانا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے، پس جو شخص یہ نہ پائے تو اسے تین روزے رکھنے ہوں گے، یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھالو میں ہے (المائدة: ٨٩ )، یہ حدیث معصیت کی نذر میں کفارہ کے واجب ہونے کا تقاضا کرتی ہے، امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کی یہی رائے ہے مگر جمہور علماء اس کے مخالف ہیں، ان کے نزدیک وجوب سے متعلق احادیث ضعیف ہیں، لیکن شارح ترمذی کہتے ہیں کہ باب کی اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں، ان سے حجت پکڑی جاسکتی ہے۔ «واللہ اعلم »
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2125)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1524
Sayyidah Umm e Salamab (RA) reported that the Prophet ﷺ said, “One who observes the (new) moon of Zulhajjah and intends to make a sacrifice must not take (meaning not shave) his hair and (not clip) his nails.” [Muslim 1977]
Top