سنن الترمذی - مناقب کا بیان - حدیث نمبر 3712
حدیث نمبر: 3712
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ:‏‏‏‏ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشًا،‏‏‏‏ وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَمَضَى فِي السَّرِيَّةِ،‏‏‏‏ فَأَصَابَ جَارِيَةً،‏‏‏‏ فَأَنْكَرُوا عَلَيْهِ،‏‏‏‏ وَتَعَاقَدَ أَرْبَعَةٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالُوا:‏‏‏‏ إِذَا لَقِينَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرْنَاهُ بِمَا صَنَعَ عَلِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ إِذَا رَجَعُوا مِنَ السَّفَرِ بَدَءُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ،‏‏‏‏ ثُمَّ انْصَرَفُوا إِلَى رِحَالِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَدِمَتِ السَّرِيَّةُ سَلَّمُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَامَ أَحَدُ الْأَرْبَعَةِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَمْ تَرَ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ صَنَعَ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْرَضَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ الثَّانِي فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ الثَّالِثُ فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ،‏‏‏‏ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ الرَّابِعُ فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالُوا، ‏‏‏‏‏‏فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْغَضَبُ يُعْرَفُ فِي وَجْهِهِ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ،‏‏‏‏ مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ،‏‏‏‏ مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ،‏‏‏‏ وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ.
مناقب حضرت علی بن ابی طالب ؓ آپ کی کنیت ابوتراب اور ابوالحسن ہے
عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایک سریہ (لشکر) روانہ کیا اور اس لشکر کا امیر علی ؓ کو مقرر کیا، چناچہ وہ اس سریہ (لشکر) میں گئے، پھر ایک لونڈی سے انہوں نے جماع کرلیا ١ ؎ لوگوں نے ان پر نکیر کی اور رسول اللہ کے اصحاب میں سے چار آدمیوں نے طے کیا اور کہا کہ رسول اللہ سے جب ہم ملیں گے تو علی نے جو کچھ کیا ہے اسے ہم آپ کو بتائیں گے، اور مسلمان جب سفر سے لوٹتے تو پہلے رسول اللہ سے ملتے اور آپ کو سلام کرتے تھے، پھر اپنے گھروں کو جاتے، چناچہ جب یہ سریہ واپس لوٹ کر آیا اور لوگوں نے آپ کو سلام کیا تو ان چاروں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ علی نے ایسا ایسا کیا ہے؟ تو رسول اللہ نے اس سے منہ پھیرلیا، پھر دوسرا کھڑا ہوا تو دوسرے نے بھی وہی بات کہی جو پہلے نے کہی تھی تو آپ نے اس سے بھی منہ پھیرلیا، پھر تیسرا شخص کھڑا ہوا اس نے بھی وہی بات کہی، تو اس سے بھی آپ نے منہ پھیرلیا، پھر چوتھا شخص کھڑا ہوا تو اس نے بھی وہی بات کہی جو ان لوگوں نے کہی تھی تو رسول اللہ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کے چہرے سے ناراضگی ظاہر تھی۔ آپ نے فرمایا: تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیا چاہتے ہو؟ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ١ ؎ اور وہ دوست ہیں ہر اس مومن کا جو میرے بعد آئے گا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) ( تحفة الأشراف: ١٠٨٦١)، و مسند احمد (٤/٤٣٧-٤٣٨) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: یہ لونڈی مال غنیمت میں سے تھی، تو لوگوں نے اس لیے اعتراض کیا کہ ابھی مال غنیمت کی تقسیم تو عمل میں آئی نہیں، اس لیے یہ مال غنیمت میں خردبرد کے ضمن میں آتا ہے، یا اس لیے اعتراض کیا کہ مال غنیمت کی لونڈیوں میں ضروری ہے کہ پہلے ایک ماہواری سے ان کے رحم کی صفائی ہوجائے، اور علی ؓ نے ایسا نہیں کیا ہے، یہ بات تو علی ؓ سے بالکل بعید ہے کہ استبراء رحم ( رحم کی صفائی ) سے پہلے لونڈی سے ہمبستری کر بیٹھیں، ہوا یہ ہوگا کہ ایک دو دن کے بعد ہی وہ ماہواری سے فارغ ہوئی ہوگی، تو اب مزید ماہواری کی تو ضرورت تھی نہیں۔ ٢ ؎: اس جملہ سے اہل تشیع کا یہ استدلال کرنا کہ علی ؓ سارے صحابہ سے افضل ہیں درست نہیں ہے کیونکہ کچھ اور صحابہ بھی ہیں جن کے متعلق آپ نے یہی جملہ کہا ہے، مثلاً جلیبیب کے متعلق آپ نے فرمایا: «ہذا منی و أنا منہ» اسی طرح اشعریین کے بارے میں آپ نے فرمایا: «فہم منی و أنا منہم» یہ دونوں روایتیں صحیح مسلم کی ہیں، مسند احمد میں ہے: آپ نے بنی ناجیہ کے متعلق فرمایا: «أنا منہم وہم منی»۔ نیز اس سے یہ استدلال کرنا بھی صحیح نہیں ہے کہ علی مجھ سے ہیں کا مطلب ہے: علی آپ کی ذات ہی میں سے ہیں، اس سے مراد ہے: نسب۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2223)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3712
Sayyidina Imran ibn Husayn (RA) narrated Allah’s Messenger ﷺ sent an army and appointed an amir, Ali ibn Abu Talib over them. They were a sariyah. He took a female captive from the booty. The people disliked that and four of the sahabah resolved to inform Allah’s Messenger ﷺ of what Ali ibn Abu Talib (RA) did, on meeting him. The Muslims used to meet Allah’s Messenger first thing on returning home from a journey, and then go to their homes. Thus, when this sariyah returned, they greeted the Prophet ﷺ One of the four stood and said, “O Messenger, of Allah, do you know that Ali ibn Abu Talib did this-and-that.” Allah’s Messenger turned his face away from him. Then the second stood up and spoke as the first had, and he turned away from him.Then the third stood and spoke similar words, and he turned his face away from him. Then, the fourth stood and spoke like they had spoken. Allah’s Messenger ﷺ turned to him and anger was obvious on his face. He said, ‘What do you expect from Ali? What do you expect from Ali. Ali is from me and I from him and he is the wali (friend or guardian), of all Muslims after me.” --------------------------------------------------------------------------------
Top