سنن الترمذی - گواہیوں کا بیان - حدیث نمبر 2369
حدیث نمبر: 2369
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَاعَةٍ لَا يَخْرُجُ فِيهَا وَلَا يَلْقَاهُ فِيهَا أَحَدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا جَاءَ بِكَ يَا أَبَا بَكْرٍ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ خَرَجْتُ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْظُرُ فِي وَجْهِهِ وَالتَّسْلِيمَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَاءَ عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا جَاءَ بِكَ يَا عُمَرُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَأَنَا قَدْ وَجَدْتُ بَعْضَ ذَلِكَ فَانْطَلَقُوا إِلَى مَنْزِلِ أَبِي الْهَيْثَمِ بْنِ التَّيْهَانِ الْأَنْصَارِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ رَجُلًا كَثِيرَ النَّخْلِ وَالشَّاءِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ خَدَمٌ فَلَمْ يَجِدُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا لِامْرَأَتِهِ:‏‏‏‏ أَيْنَ صَاحِبُكِ ؟ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ انْطَلَقَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَلْبَثُوا أَنْ جَاءَ أَبُو الْهَيْثَمِ بِقِرْبَةٍ يَزْعَبُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَوَضَعَهَا ثُمَّ جَاءَ يَلْتَزِمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُفَدِّيهِ بِأَبِيهِ وَأُمِّهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْطَلَقَ بِهِمْ إِلَى حَدِيقَتِهِ فَبَسَطَ لَهُمْ بِسَاطًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى نَخْلَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ بِقِنْوٍ فَوَضَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَفَلَا تَنَقَّيْتَ لَنَا مِنْ رُطَبِهِ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ تَخْتَارُوا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ تَخَيَّرُوا مِنْ رُطَبِهِ وَبُسْرِهِ فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ هَذَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مِنَ النَّعِيمِ الَّذِي تُسْأَلُونَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏ظِلٌّ بَارِدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرُطَبٌ طَيِّبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَاءٌ بَارِدٌ amp;qquot;، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ لِيَصْنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تَذْبَحَنَّ ذَاتَ دَرٍّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَذَبَحَ لَهُمْ عَنَاقًا أَوْ جَدْيًا فَأَتَاهُمْ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلُوا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ هَلْ لَكَ خَادِمٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِذَا أَتَانَا سَبْيٌ فَأْتِنَا ، ‏‏‏‏‏‏فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَأْسَيْنِ لَيْسَ مَعَهُمَا ثَالِثٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَاهُ أَبُو الْهَيْثَمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اخْتَرْ مِنْهُمَا ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ اخْتَرْ لِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ الْمُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ خُذْ هَذَا فَإِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي وَاسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوفًا ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ إِلَى امْرَأَتِهِ فَأَخْبَرَهَا بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ:‏‏‏‏ مَا أَنْتَ بِبَالِغٍ مَا قَالَ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا أَنْ تَعْتِقَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَهُوَ عَتِيقٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا وَلَا خَلِيفَةً إِلَّا وَلَهُ بِطَانَتَانِ، ‏‏‏‏‏‏بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْكَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِطَانَةٌ لَا تَأْلُوهُ خَبَالًا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ يُوقَ بِطَانَةَ السُّوءِ فَقَدْ وُقِيَ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
صحابہ کرام کے رہن سہن کے بارے میں
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم خلاف معمول ایسے وقت میں گھر سے نکلے کہ جب آپ نہیں نکلتے تھے اور نہ اس وقت آپ سے کوئی ملاقات کرتا تھا، پھر آپ کے پاس ابوبکر ؓ پہنچے تو آپ نے پوچھا: ابوبکر تم یہاں کیسے آئے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اس لیے نکلا تاکہ آپ سے ملاقات کروں اور آپ کے چہرہ انور کو دیکھوں اور آپ پر سلام پیش کروں، کچھ وقفے کے بعد عمر ؓ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے پوچھا: عمر! تم یہاں کیسے آئے؟ اس پر انہوں نے بھوک کی شکایت کی، آپ نے فرمایا: مجھے بھی کچھ بھوک لگی ہے ١ ؎، پھر سب مل کر ابوالہیشم بن تیہان انصاری کے گھر پہنچے، ان کے پاس بہت زیادہ کھجور کے درخت اور بکریاں تھیں مگر ان کا کوئی خادم نہیں تھا، ان لوگوں نے ابوالھیثم کو گھر پر نہیں پایا تو ان کی بیوی سے پوچھا: تمہارے شوہر کہاں ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لانے گئے ہیں، گفتگو ہو رہی تھی کہ اسی دوران! ابوالہیشم ایک بھری ہوئی مشک لیے آ پہنچے، انہوں نے مشک کو رکھا اور رسول اللہ سے لپٹ گئے اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، پھر سب کو وہ اپنے باغ میں لے گئے اور ان کے لیے ایک بستر بچھایا پھر کھجور کے درخت کے پاس گئے اور وہاں سے کھجوروں کا گچھا لے کر آئے اور اسے رسول اللہ کے سامنے رکھ دیا۔ آپ نے فرمایا: ہمارے لیے اس میں سے تازہ کھجوروں کو چن کر کیوں نہیں لائے؟ عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے چاہا کہ آپ خود ان میں سے چن لیں، یا یہ کہا کہ آپ حضرات پکی کھجوروں کو کچی کھجوروں میں سے خود پسند کرلیں، بہرحال سب نے کھجور کھائی اور ان کے اس لائے ہوئے پانی کو پیا، اس کے بعد رسول اللہ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یقیناً یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیا جائے گا اور وہ نعمتیں یہ ہیں: باغ کا ٹھنڈا سایہ، پکی ہوئی عمدہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی ، پھر ابوالھیثم اٹھ کھڑے ہوئے تاکہ ان لوگوں کے لیے کھانا تیار کریں تو آپ نے ان سے کہا: دودھ والے جانور کو ذبح نہ کرنا ، چناچہ آپ کے حکم کے مطابق انہوں نے بکری کا ایک مادہ بچہ یا نر بچہ ذبح کیا اور اسے پکا کر ان حضرات کے سامنے پیش کیا، ان سبھوں نے اسے کھایا اور پھر آپ نے ابوالھیثم سے پوچھا؟ کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا: جب ہمارے پاس کوئی قیدی آئے تو تم ہم سے ملنا ، پھر نبی اکرم کے پاس دو قیدی لائے گئے جن کے ساتھ تیسرا نہیں تھا، ابوالھیثم بھی آئے تو آپ نے ان سے کہا کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو پسند کرلو، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ خود ہمارے لیے پسند کر دیجئیے۔ نبی اکرم نے فرمایا: بیشک جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین ہوتا ہے۔ لہٰذا تم اس کو لے لو (ایک غلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کیونکہ ہم نے اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور اس غلام کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ، پھر ابوالھیثم اپنی بیوی کے پاس گئے اور رسول اللہ کی باتوں سے اسے باخبر کیا، ان کی بیوی نے کہا کہ تم نبی اکرم کی وصیت کو پورا نہ کرسکو گے مگر یہ کہ اس غلام کو آزاد کر دو، اس لیے ابوالھیثم نے فوراً اسے آزاد کردیا، نبی اکرم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کسی نبی یا خلیفہ کو نہیں بھیجا ہے مگر اس کے ساتھ دو راز دار ساتھی ہوتے ہیں، ایک اسے بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے، جب کہ دوسرا ساتھی اسے خراب کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا، پس جسے برے ساتھی سے بچا لیا گیا گویا وہ بڑی آفت سے نجات پا گیا ٢ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ١٢٣ (٥١٢٨)، سنن ابن ماجہ/الأدب ٣٧ (٣٧٤٥) (وکلاہما بقولہ: " المستشار مؤتمن " ) ویأتي عند المؤلف في الأدب ٥٧ (٢٨٢٢) (تحفة الأشراف: ١٤٩٧٧) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: کتاب الزہد اور اس باب سے اس حدیث کی مناسبت اسی ٹکڑے میں ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ اور آپ کے صحابہ بھی کھانے کے لیے کچھ نہیں پاتے تھے اور بھوک سے دو چار ہوتے تھے۔ ٢ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کس قدر تنگ دستی کی زندگی گزار رہے تھے، ایسے احباب کے پاس طلب ضیافت کے لیے جانا جائز ہے جن کی بابت علم ہو کہ وہ اس سے خوش ہوں گے، اس حدیث میں مہمان کی عزت افزائی اور اس کی آمد پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی ترغیب ہے، اسی طرح گھر پر شوہر کی عدم موجودگی میں اگر کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو عورت اپنے شوہر کے مہمانوں کا استقبال کرسکتی، اور انہیں خوش آمدید کہہ سکتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1641)، مختصر الشمائل (113)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2369
Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported that once the Prophet ﷺ came out of his house at an hour he never came out and no one would come to meet him (at that hour). Abu Bakr (RA) came to him (suddenly) and he asked, “What is with you, O Abu Bakr?” He said, “I came out to meet Allah’s Messenger and observe his face and to offer my salutation to him.’ Hardly had any time passed when Umar (also) came, and he asked, “What is it with you, O Umar?” He said, “Hunger, O Messenger of Allah.” He said, “And I too found something of that (on me).” So, they set out to the house of Abul Haytham ibn Tayyihan Ansari. He possessed a lot of palm trees and sheep, but he had no servant. They did not find him. They asked his wife “Where is your life partner?” She said, He has gone to fetch us sweet water.”Not much time gone by when he came with a water skin of sweet water. He put it down and embraced Prophet ﷺ and said, “My parents be ransomed to you.” Then he went with them to his garden and spread for them a mat. He went to a palm tree and returned with a bunch of dates which he placed down. The Prophet ﷺ said to him, “Why did you not pick out (only) fresh dates for us?” He said, “O Messenger of Allah, I thought that you might choose for yourself fresh and the dried.” They ate and drank from that water. Allah’s Messenger ﷺ said, “By Him Who Has my life in His hand! You will be asked on the day of Resurrection about these blessings: the cool shade, the fresh dates and cool water.” Abul Haytham engaged himself to prepare a meal for them. The Prophet ﷺ said to him, “Do not slaughter a milk-yielding animal.” So, he slaughtered a kid and brought (the cooked food) to them. They ate. The Prophet ﷺ asked him, “Do you have a servant?” He said, “No.” He said, “When captives are brought to us, you come.” (Soon) two captives were brought to the Prophet ﷺ and there was not a third with them, and Abu Haytham also came to him. The Prophet ﷺ said to him, “Chose one of them.” He said, “O Prophet ﷺ of Allah, you select for me.” The Prophet ﷺ said, “The one who is consulted is trusted. Take this one, for I have seen him offer salah. And, he instructed him to be kind to him in treatment. Abu Haytham went to his wife and conveyed to her the instruction of the Prophet. So, his wife said to him, “You will not be able to abide by the saying of the Prophet ﷺ except that you set him free.” He said, “He is free.” So, the Prophet ﷺ said, “Surely. Allah does not send a Prophet, or a khalifah (caliph) except that he has two kinds of retinue, one who enjoin that which is pious and forbids that which is evil, and the other who make him wicked. And he who is protected from evil friends has been saved, indeed.” [Bukhari 7198, Ahmed 11342]
Top