سنن الترمذی - گواہیوں کا بیان - حدیث نمبر 2302
حدیث نمبر: 2302
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنِ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ مِنْ بَعْدِهِمْ يَتَسَمَّنُونَ وَيُحِبُّونَ السِّمَنَ يُعْطُونَ الشَّهَادَةَ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلُوهَا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَصْحَابُ الْأَعْمَشِ إِنَّمَا رَوَوْا عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ .
گواہوں کے متعلق نبی ﷺ سے منقول احادیث کے ابواب
عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا: سب سے اچھے لوگ میرے زمانہ کے ہیں (یعنی صحابہ) ، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (یعنی تابعین) ، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (یعنی اتباع تابعین) ١ ؎، آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو موٹا ہونا چاہیں گے، موٹاپا پسند کریں گے اور گواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دیں گے ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث اعمش کے واسطہ سے علی بن مدرک کی روایت سے غریب ہے، ٢ - اعمش کے دیگر شاگردوں نے «عن الأعمش عن هلال بن يساف عن عمران بن حصين» کی سند سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ٢٢٢١) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اس سے صحابہ کرام کی فضیلت تابعین پر، اور تابعین کی فضیلت اتباع تابعین پر ثابت ہوتی ہے۔ ٢ ؎: ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم نے یہ لفظ دو یا تین بار دہرایا، اگر تین بار دہرایا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے خود اپنا زمانہ مراد لیا، پھر صحابہ کا پھر تابعین کا، پھر اتباع تابعین کا، اور اگر آپ نے صرف دو بار فرمایا تو اس کا وہی مطلب ہے جو ترجمہ کے اندر قوسین میں واضح کیا گیا ہے۔ ٣ ؎: اس حدیث سے از خود شہادت دینے کی مذمت ثابت ہوتی ہے، جب کہ حدیث نمبر ٢١٩٥ سے اس کی مدح و تعریف ثابت ہے، تعارض اس طرح دفع ہوجاتا ہے کہ مذمت مطلقاً اور از خود شہادت پیش کرنے کی نہیں بلکہ جلدی سے ایسی شہادت دینے کی وجہ سے ہے جس سے جھوٹ ثابت کرسکیں اور باطل طریقہ سے کھا پی سکیں اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر اسے ہضم کر سکں، معلوم ہوا کہ حقوق کے تحفظ کے لیے دی گئی شہادت مقبول اور بہتر وعمدہ ہے جب کہ حقوق کو ہڑپ کر جانے کی نیت سے دی گئی شہادت قبیح اور بری ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح مضی (2334)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2302
Sayyidina Imran ibn Husayn reported that he heard Allah’s Messenger ﷺ say, “The best of people are my generation, then those that succeed them, then those who will succeed them then those who wil I succeed them. Three times. Then a people will come after them who will like elderliness and love it. They will offer testimony before being asked for it”. [Ahmed 19841]
Top