سنن الترمذی - قرآن کی تفسیر کا بیان - حدیث نمبر 3316
حدیث نمبر: 3316
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو جَنَابٍ الْكَلْبِيُّ، عَنْ الضَّحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ كَانَ لَهُ مَالٌ يُبَلِّغُهُ حَجَّ بَيْتِ رَبِّهِ أَوْ تَجِبُ عَلَيْهِ فِيهِ الزَّكَاةُ فَلَمْ يَفْعَلْ سَأَلَ الرَّجْعَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏اتَّقِ اللَّهَ إِنَّمَا سَأَلَ الرَّجْعَةَ الْكُفَّارُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَتْلُو عَلَيْكَ بِذَلِكَ قُرْآنًا:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلا أَوْلادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ‏‏‏‏ 9 ‏‏‏‏ وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِلَى قَوْلِهِ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ سورة المنافقون آية 8 ـ 11 قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا يُوجِبُ الزَّكَاةَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا بَلَغَ الْمَالُ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَصَاعِدًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا يُوجِبُ الْحَجَّ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الزَّادُ وَالْبَعِيرُ .
سورت منافقون کی تفسیر
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ جس کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ حج بیت اللہ کو جاسکے یا اس پر اس میں زکاۃ واجب ہوتی ہو اور وہ حج کو نہ جائے، زکاۃ ادا نہ کرے تو وہ مرتے وقت اللہ سے درخواست کرے گا کہ اسے وہ دنیا میں دوبارہ لوٹا دے، ایک شخص نے کہا: ابن عباس! اللہ سے ڈرو، دوبارہ لوٹا دیئے جانے کی آرزو تو کفار کریں گے (نہ کہ مسلمین) ابن عباس ؓ نے کہا: میں تمہیں اس کے متعلق قرآن پڑھ کر سناتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا «يا أيها الذين آمنوا لا تلهكم أموالکم ولا أولادکم عن ذکر اللہ ومن يفعل ذلک فأولئك هم الخاسرون وأنفقوا من ما رزقناکم من قبل أن يأتي أحدکم الموت» سے «والله خبير بما تعملون» اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں، اور جس نے ایسا کیا وہی لوگ ہیں خسارہ اٹھانے والے ہوں گے، اور جو روزی ہم نے تمہیں دی ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے اور وہ کہنے لگے کہ اے میرے رب! کیوں نہ تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دے لیتا، اور نیک لوگوں میں سے ہوجاتا اور جب کسی کا مقررہ وقت آ جاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو سب معلوم ہے (المنافقین: ٩- ١١) ، تک۔ اس نے پوچھا: کتنے مال میں زکاۃ واجب ہوجاتی ہے؟ ابن عباس ؓ نے کہا: جب مال دو سو درہم ١ ؎ ہوجائے یا زیادہ، پھر پوچھا: حج کب واجب ہوتا ہے؟ کہا: جب توشہ اور سواری کا انتظام ہوجائے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف: ٥٦٨٩) (ضعیف الإسناد) (سند میں ضحاک بن مزاحم کثیر الارسال ہیں، اور ابو جناب کلبی ضعیف راوی ہیں)
وضاحت: ١ ؎: یعنی ٥٩٥ گرام چاندی ہوجائے تو اس پر زکاۃ ہے، ١٢ فیصد زکاۃ ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (5803)، القسم الأول منه //
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3316
Sayyidina Ibn Abbas (RA) said that if anyone possesses enough wealth to enable him to go and perform Hajj at the House of his Lord, or to make it obligatory on him to pay zakah but does not do that, at the then time of death he will plead for a return (to earthly life). A man exclaimed, "O Ibn Abbas (RA) ! Fear Allah. Only the disbelievers will long for a return." So, he said, "I will recite to you from the Quran concerning that (what I say)." And he recited: "O ye who believe! Let not your riches or your children divert you from the remembrance of Allah. If any act thus, the loss is their own. And spend something (in charity) out of the substance which We have bestowed on you, before Death should come to any of you and he should say, "O my Lord! why didst Thou not give me respite for a little while? I should then have given (largely) in charity, and I should have been one of the doers of good". But to no soul will Allah grant respite when the time appointed (for it) has come; and Allah is well acquainted with (all) that ye do." (63: 9 -11)The man asked. "What makes zakah obligatory?" He said, "When the property is two hundred (dirhams) or more." "And", he asked, "What makes Hajj obligatory?" He said, "Provision for the journey and (availability of) the conveyance."
Top