مسند امام احمد - صحیفہ ہمام بن منبہ رحمتہ اللہ علیہ - حدیث نمبر 2627
حدیث نمبر: 3278
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ لَقِيَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَعْبًا بِعَرَفَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَكَبَّرَ حَتَّى جَاوَبَتْهُ الْجِبَالُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ إِنَّا بَنُو هَاشِمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ كَعْبٌ إِنَّ اللَّهَ قَسَمَ رُؤْيَتَهُ وَكَلَامَهُ بَيْنَ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَكَلَّمَ مُوسَى مَرَّتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَآهُ مُحَمَّدٌ مَرَّتَيْنِ قَالَ مَسْرُوقٌ:‏‏‏‏ فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ، فَقُلْتُ:‏‏‏‏ هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ ؟ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ لَقَدْ تَكَلَّمْتَ بِشَيْءٍ قَفَّ لَهُ شَعْرِي، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ رُوَيْدًا ثُمَّ قَرَأْتُ:‏‏‏‏ لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى سورة النجم آية 18، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ أَيْنَ يُذْهَبُ بِكَ إِنَّمَا هُوَ جِبْرِيلُ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ أَخْبَرَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ كَتَمَ شَيْئًا مِمَّا أُمِرَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ يَعْلَمُ الْخَمْسَ الَّتِي قَالَ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ سورة لقمان آية 34 فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَرَهُ فِي صُورَتِهِ إِلَّا مَرَّتَيْنِ:‏‏‏‏ مَرَّةً عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى، ‏‏‏‏‏‏وَمَرَّةً فِي جِيَادٍ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ قَدْ سَدَّ الْأُفُقَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رَوَى دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ دَاوُدَ أَقْصَرُ مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ.
سورت نجم کی تفسیر
عامر شراحیل شعبی کہتے ہیں کہ ابن عباس ؓ کی ملاقات کعب الاحبار سے عرفہ میں ہوئی، انہوں نے کعب سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے تکبیرات پڑھیں جن کی صدائے بازگشت پہاڑوں میں گونجنے لگی، ابن عباس ؓ نے کہا: ہم بنو ہاشم سے تعلق رکھتے ہیں، کعب نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اپنی رویت و دیدار کو اور اپنے کلام کو محمد اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تقسیم کردیا ہے۔ اللہ نے موسیٰ سے دو بار بات کی، اور محمد نے اللہ کو دو بار دیکھا۔ مسروق کہتے ہیں: میں ام المؤمنین عائشہ ؓ کے پاس پہنچا، میں نے ان سے پوچھا: کیا محمد نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا: تم نے تو ایسی بات کہی ہے جسے سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں، میں نے کہا: ٹھہریئے، جلدی نہ کیجئے (پوری بات سن لیجئے) پھر میں نے آیت «لقد رأى من آيات ربه الکبری» پھر آپ نے اللہ کی بڑی آیات و نشانیاں دیکھیں (النجم: ١٨) ، تلاوت کی ام المؤمنین عائشہ ؓ نے فرمایا: تمہیں کہاں لے جایا گیا ہے؟ (کہاں بہکا دیے گئے ہو؟ ) یہ دیکھے جانے والے تو جبرائیل تھے، تمہیں جو یہ خبر دے کہ محمد نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ یا جن باتوں کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ان میں سے آپ نے کچھ چھپالیا ہے، یا وہ پانچ چیزیں جانتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ «إن اللہ عنده علم الساعة وينزل الغيث» اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور اللہ ہی جانتا ہے کہ بارش کب اور کہاں نازل ہوگی (سورۃ لقمان: ٣٤) ، اس نے بڑا جھوٹ بولا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ آپ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا، جبرائیل (علیہ السلام) کو آپ نے ان کی اپنی اصل صورت میں صرف دو مرتبہ دیکھا ہے، (ایک بار) سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اور ایک بار جیاد میں (جیاد نشیبی مکہ کا ایک محلہ ہے) جبرائیل (علیہ السلام) کے چھ سو بازو تھے، انہوں نے سارے افق کو اپنے پروں سے ڈھانپ رکھا تھا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: داود بن ابی ہند نے شعبی سے، شعبی نے مسروق سے اور مسروق نے عائشہ ؓ کے واسطہ سے، نبی اکرم سے اس جیسی حدیث روایت کی، داود کی حدیث مجالد کی حدیث سے چھوٹی ہے (لیکن وہی صحیح ہے) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (بقصة ابن عباس مع کعب) وانظر حدیث رقم ٣٠٦٨ (للجزء الأخیر) (ضعیف الإسناد)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3278
Top