سنن الترمذی - قرآن کی تفسیر کا بیان - حدیث نمبر 3245
حدیث نمبر: 3245
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ يَهُودِيٌّ بِسُوقِ الْمَدِينَةِ:‏‏‏‏ لَا وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَرَفَعَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يَدَهُ فَصَكَّ بِهَا وَجْهَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَقُولُ هَذَا وَفِينَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ إِلا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ سورة الزمر آية 68 فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ رَفَعَ رَأْسَهُ فَإِذَا مُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا أَدْرِي أَرَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلِي أَمْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَى اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ قَالَ:‏‏‏‏ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى فَقَدْ كَذَبَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سورہ زمر کی تفسیر
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تمام انسانوں میں سے چن لیا، (یہ سنا) تو ایک انصاری شخص نے ہاتھ اٹھا کر ایک طمانچہ اس کے منہ پر مار دیا، کہا: تو ایسا کہتا ہے جب کہ (تمام انسانوں اور جنوں کے سردار) نبی اکرم ہمارے درمیان موجود ہیں۔ (دونوں رسول اللہ کے پاس پہنچے) رسول اللہ نے آیت: «ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء اللہ ثم نفخ فيه أخری فإذا هم قيام ينظرون» جب صور پھونکا جائے گا آواز کی کڑک سے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے گا آسمانوں و زمین کے سبھی لوگ غشی کھا جائیں گے، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا، تو وہ کھڑے ہو کر دیکھتے ہوں گے (کہ ان کے ساتھ) کیا کیا جاتا ہے؟ (الزمر: ٦٩) ، پڑھی اور کہا: سب سے پہلا سر اٹھانے والا میں ہوں گا تو موسیٰ مجھے عرش کا ایک پایہ پکڑے ہوئے دکھائی دیں گے، میں نہیں کہہ سکتا کہ موسیٰ نے مجھ سے پہلے سر اٹھایا ہوگا یا وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے «إلا من شاء الله» کہہ کر مستثنیٰ کردیا ہے ٢ ؎ اور جس نے کہا: میں یونس بن متی (علیہ السلام) سے بہتر ہوں اس نے غلط کہا ٣ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف: ١٥٠٦٢) (حسن صحیح)
وضاحت: ١ ؎: روز حشر کا یہ واقعہ سنانے کہ آپ موسیٰ (علیہ السلام) کی فضیلیت ذکر کرنا چاہتے ہیں نیز اپنی خاکساری کا اظہار فرما رہے ہیں، اپنی خاکساری ظاہری کرنا دوسری بات ہے، اور فی نفسہ موسیٰ (علیہ السلام) کا تمام انبیاء کے افضل ہونا اور بات ہے البتہ اس طرح کسی نبی کا نام لے کر آپ کے ساتھ مقابلہ کر کے آپ کی فضیلت بیان کرنے والے کو تاؤ میں آ کر مار دینا مناسب نہیں ہے، آپ نے اس وقت یہی تعلیم دہی ہے۔ ٣ ؎: حقیقت میں نبی اکرم سب سے افضل نبی ہیں، اور سیدالأنبیاء و الرسل ہیں، لیکن انبیاء کا آپس میں تقابل عام حالات میں صحیح نہیں ہے، بلکہ خلاف ادب ہے، اس کا تواضح و انکساری اور انبیاء و رسل کی غرض و احترام میں آپ نے ادب سکھایا اور اس طرح کے موازنہ پر تنقید فرمائی۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح تخريج الطحاوية ص // (160 - // 162)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3245
Sayyidina Abu Hurayrah reported that, in the market of Madinah, a Jew said, “By Him Who chose Musa over all human beings....” A man of the Ansar raised his hand and slapped the Jew’s face with it, saying, “You (dare to) say that while Allah’s Prophet ﷺ is amongst us?” (Both of them came to the Prophet ﷺ So, Allah’s Messenger ﷺ recited: "And the trumpet shall be blown, so all who are in the heavens and all who are on the earth shall swoon, except whom Allah will. Then it shall be blown again, behold, they shall stand beholding."(39: 68) (He said) “I will be the first one who raises his head and, behold, Musa will be holding a pillar of the pillars of the Throne. And I cannot say whether he will raise his head before me or be among those whom Allah has exempted.O And he who says that I am better than Yunus ibn Mata has indeed lied.” [Ahmed 9828, Bukhari 2411, Ibn e Majah 4274, Muslim 2373, Abu Dawud 4671]
Top