سنن الترمذی - قرآن کی تفسیر کا بیان - حدیث نمبر 3134
حدیث نمبر: 3134
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ:‏‏‏‏ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ سورة الإسراء آية 60، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ هِيَ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
تفسیر سورت بنی اسرائیل
عبداللہ بن عباس ؓ آیت کریمہ: «وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس» اور نہیں کیا ہم نے وہ مشاہدہ کہ جسے ہم نے تمہیں کروایا ہے (یعنی إسراء و معراج کے موقع پر جو کچھ دکھلایا ہے) مگر لوگوں کی آزمائش کے لیے (بنی اسرائیل: ٦٠) ، کے بارے میں کہتے ہیں: اس سے مراد (کھلی) آنکھوں سے دیکھنا تھا، جس دن آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تھی ١ ؎ انہوں نے یہ بھی کہا «والشجرة الملعونة في القرآن» میں شجرہ «ملعونہ» سے مراد تھوہڑ کا درخت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٤٢ (٣٨٨٨)، وتفسیر الإسراء (٤٧١٦)، و القدر ١٠ (٦٦١٣) (تحفة الأشراف: ٦١٦٧) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: یعنی خواب میں سیر نہیں، بلکہ حقیقی و جسمانی معراج تھی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3134
Sayyidina Ibn Abbas (RA) explained the words of Allah, the Exalted: "And We made not the vision We showed you but as a trial for mankind." (17: 60) He said, “This is a vision that the Prophet ﷺ saw with his eyes on the night of isra to Bayt al_Maqdis.” And he said about: “As also the tree cursed in the Qur’an. (He said,) “It is tree of zaqqum." [Ahmed 1916, Bukhari 3888]
Top