سنن الترمذی - قرآن کی تفسیر کا بیان - حدیث نمبر 3086
حدیث نمبر: 3086
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وسهل بن يوسف، قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَاعَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ الْفَارِسِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ:‏‏‏‏ مَا حَمَلَكُمْ أَنْ عَمَدْتُمْ إِلَى الْأَنْفَالِ وَهِيَ مِنَ الْمَثَانِي، ‏‏‏‏‏‏وَإِلَى بَرَاءَةٌ وَهِيَ مِنَ الْمِئِينَ فَقَرَنْتُمْ بَيْنَهُمَا وَلَمْ تَكْتُبُوا بَيْنَهُمَا سَطْرَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، ‏‏‏‏‏‏وَوَضَعْتُمُوهَا فِي السَّبْعِ الطُّوَلِ، ‏‏‏‏‏‏مَا حَمَلَكُمْ عَلَى ذَلِكَ ؟ فَقَالَ عُثْمَانُ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يَأْتِي عَلَيْهِ الزَّمَانُ وَهُوَ تَنْزِلُ عَلَيْهِ السُّوَرُ ذَوَاتُ الْعَدَدِ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الشَّيْءُ دَعَا بَعْضَ مَنْ كَانَ يَكْتُبُ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ ضَعُوا هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا نَزَلَتْ عَلَيْهِ الْآيَةُ فَيَقُولُ ضَعُوا هَذِهِ الْآيَةَ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ الْأَنْفَالُ مِنْ أَوَائِلِ مَا أُنْزِلَتْ بِالْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ بَرَاءَةُ مِنْ آخِرِ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ قِصَّتُهَا شَبِيهَةً بِقِصَّتِهَا فَظَنَنْتُ أَنَّهَا مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُبَيِّنْ لَنَا أَنَّهَا مِنْهَا فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ قَرَنْتُ بَيْنَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ أَكْتُبْ بَيْنَهُمَا سَطْرَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَوَضَعْتُهَا فِي السَّبْعِ الطُّوَلِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ الْفَارِسِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيَزِيدُ الْفَارِسِيُّ هُوَ مِنَ التَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ رَوَى عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ غَيْرَ حَدِيثٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ هُوَ يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَزِيدُ الرَّقَاشِيُّ هُوَ يَزِيدُ بْنُ أَبَانَ الرَّقَاشِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ مِنَ التَّابِعِينَ وَلَمْ يُدْرِكْ ابْنَ عَبَّاسٍ إِنَّمَا رَوَى عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَكِلَاهُمَا مِنَ التَّابِعِينَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَزِيدُ الْفَارِسِيُّ أَقْدَمُ مِنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ.
تفسیر سورت التوبہ
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان ؓ سے کہا کہ کس چیز نے آپ کو آمادہ کیا کہ سورة الانفال کو جو «مثانی» میں سے ہے اور سورة برأۃ کو جو «مئین» میں سے ہے دونوں کو ایک ساتھ ملا دیا، اور ان دونوں سورتوں کے بیچ میں «بسم اللہ الرحمن الرحيم» کی سطر بھی نہ لکھی۔ اور ان دونوں کو «سبع طوال» (سات لمبی سورتوں) میں شامل کردیا۔ کس سبب سے آپ نے ایسا کیا؟ عثمان ؓ نے کہا: رسول اللہ پر زمانہ آتا جا رہا تھا اور آپ پر متعدد سورتیں نازل ہو رہی تھیں، تو جب آپ پر کوئی آیت نازل ہوتی تو وحی لکھنے والوں میں سے آپ کسی کو بلاتے اور کہتے کہ ان آیات کو اس سورة میں شامل کر دو جس میں ایسا ایسا مذکور ہے۔ اور پھر جب آپ پر کوئی آیت اترتی تو آپ فرماتے اس آیت کو اس سورة میں رکھ دو جس میں اس اس طرح کا ذکر ہے۔ سورة الانفال ان سورتوں میں سے ہے جو مدینہ میں آنے کے بعد شروع شروع میں نازل ہوئی ہیں۔ اور سورة برأت قرآن کے آخر میں نازل ہوئی ہے۔ اور دونوں کے قصوں میں ایک دوسرے سے مشابہت تھی تو ہمیں خیال ہوا کہ یہ اس کا ایک حصہ (و تکملہ) ہے۔ پھر رسول اللہ نے ہمیں یہ بتائے بغیر کہ یہ سورة اسی سورة کا جزو حصہ ہے اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔ اس سبب سے ہم نے ان دونوں سورتوں کو ایک ساتھ ملا دیا اور ان دونوں سورتوں کے درمیان ہم نے «بسم اللہ الرحمن الرحيم» نہیں لکھا اور ہم نے اسے «سبع طوال» میں رکھ دیا (شامل کردیا) ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اسے ہم صرف عوف کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ یزید فارسی کے واسطہ سے ابن عباس سے روایت کرتے ہیں، اور یزید فارسی تابعین میں سے ہیں، انہوں نے ابن عباس سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ وہ یزید بن ہرمز ہیں۔ اور یزید رقاشی یہ یزید بن ابان رقاشی ہیں، یہ تابعین میں سے ہیں اور ان کی ملاقات ابن عباس سے نہیں ہے۔ انہوں نے صرف انس بن مالک سے روایت کی ہے، اور یہ دونوں ہی بصرہ والوں میں سے ہیں۔ اور یزید فارسی، یزید رقاشی سے متقدم ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ١٢٥ (٧٨٦) (تحفة الأشراف: ٩٨١٩)، و مسند احمد (١/٥٧، ٦٩) (ضعیف) (سند میں یزید الفارسی البصری مقبول راوی ہیں یعنی متابعت کے وقت اور متابعت موجود نہیں ہے اس لیے لین الحدیث ہیں )
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (140) // عندنا برقم (168 / 786) //
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3086
Sayyidina lbn Abbas reported that he asked Sayyidina Uthman ibn Affan, ‘What brought you to place (surah) al-Anfal-which is among al-Mathani-with (surah) Bara-which is among the mi’in (a surah with hundred or more verses) And why the’ are joined without your writing between the two; and, your placing them among as-sab’at-tul (seven long surah ), what brought you to do this? So, he replied, “When a time passed over and a number of surah had been revealed to Allah’s Messenger ﷺ with every fresh revelation that he recieved, he summoned some of his scribes and instructed them to insert the verse in the surah that mentoins this-and-that and when a verse was revealed, he instructed them to insert it in such-and-such surah. As for al-Anfal it was among the first to be revealed at Madinah and Bara was the last of the Quran and its subject matter is similar to the subject-matter of the other, and I thought that it was part of the other. Besides, Allah’s Messenger ﷺ had not specified to us till his death, whether it was part of the other, It is for this reason that I paired them without writing "Bismillahi ar-rahman ar-rahim" between them and placed them among as-sabal-tul.” [Abu Dawud 786,Ahmed 3991]
Top