سنن الترمذی - قرآن کی تفسیر کا بیان - حدیث نمبر 3068
حدیث نمبر: 3068
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ مُتَّكِئًا عِنْدَ عَائِشَةَ، فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا أَبَا عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏ثَلَاثٌ مَنْ تَكَلَّمَ بِوَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللَّهِ الْفِرْيَةَ:‏‏‏‏ مَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَى اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ لا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ سورة الأنعام آية 103 وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ سورة الشورى آية 51 وَكُنْتُ مُتَّكِئًا فَجَلَسْتُ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏أَنْظِرِينِي وَلَا تُعْجِلِينِي أَلَيْسَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى سورة النجم آية 13 وَلَقَدْ رَآهُ بِالأُفُقِ الْمُبِينِ سورة التكوير آية 23، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ أَنَا وَاللَّهِ أَوَّلُ مَنْ سَأَلَ عَنْ هَذَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا ذَاكَ جِبْرِيلُ، ‏‏‏‏‏‏مَا رَأَيْتُهُ فِي الصُّورَةِ الَّتِي خُلِقَ فِيهَا غَيْرَ هَاتَيْنِ الْمَرَّتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏رَأَيْتُهُ مُنْهَبِطًا مِنَ السَّمَاءِ سَادًّا عِظَمُ خَلْقِهِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا كَتَمَ شَيْئًا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَى اللَّهِ يَقُولُ اللَّهُ:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ سورة المائدة آية 67، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ زَعَمَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ قُلْ لا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ الْغَيْبَ إِلا اللَّهُ سورة النمل آية 65 ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ يُكْنَى أَبَا عَائِشَةَ وَهُوَ مَسْرُوقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏وَهَكَذَا كَانَ اسْمُهُ فِي الدِّيوَانِ.
تفسیر سورت انعام
مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ ؓ کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا: اے ابوعائشہ! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک بھی کیا تو وہ اللہ پر بڑی بہتان لگائے گا: ( ١ ) جس نے خیال کیا کہ محمد نے (معراج کی رات میں) اللہ کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ کی ذات کے بارے میں بڑی بہتان لگائی۔ کیونکہ اللہ اپنی ذات کے بارے میں کہتا ہے «لا تدرکه الأبصار وهو يدرک الأبصار وهو اللطيف الخبير» کہ اسے انسانی نگاہیں نہیں پاسکتی ہیں، اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے (یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سبھی کو دیکھ لیتا ہے) اور اس کی ذات لطیف و خبیر ہے ، «وما کان لبشر أن يكلمه اللہ إلا وحيا أو من وراء حجاب» کسی انسان کو بھی یہ مقام و درجہ حاصل نہیں ہے کہ اللہ اس سے بغیر وحی کے یا بغیر پردے کے براہ راست اس سے بات چیت کرے ، (وہ کہتے ہیں) میں ٹیک لگائے ہوئے تھا اور اٹھ بیٹھا، میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے بولنے کا موقع دیجئیے اور میرے بارے میں حکم لگانے میں جلدی نہ کیجئے گا، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: «ولقد رآه نزلة أخری» بیشک محمد نے اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (النجم: ١٣ ) «ولقد رآه بالأفق المبين» بیشک انہوں نے اسے آسمان کے روشن کنارے پر دیکھا (التکویر: ٢٣ ) تب عائشہ ؓ نے کہا: قسم اللہ کی! میں وہ پہلی ذات ہوں جس نے رسول اللہ سے اس کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: وہ تو جبرائیل (علیہ السلام) تھے (ان آیتوں میں میرے دیکھنے سے مراد جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھنا تھا، اللہ کو نہیں) ان دو مواقع کے سوا اور کوئی موقع ایسا نہیں ہے جس میں جبرائیل (علیہ السلام) کو میں نے ان کی اپنی اصل صورت میں دیکھا ہو۔ جس پر ان کی تخلیق ہوئی ہے، میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا ہے، ان کی بناوٹ کی بڑائی یعنی بھاری بھر کم جسامت نے آسمان و زمین کے درمیان جگہ کو گھیر رکھا تھا ، ( ٢ ) : اور دوسرا وہ شخص کہ جو اللہ پر جھوٹا الزام لگانے کا بڑا مجرم ہے جس نے یہ خیال کیا کہ اللہ نے محمد پر جو چیزیں اتاری ہیں ان میں سے کچھ چیزیں محمد نے چھپالی ہیں۔ جب کہ اللہ کہتا ہے «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» جو چیز اللہ کی جانب سے تم پر اتاری گئی ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو (النساء: ٦٧ ) ، ( ٣ ) : وہ شخص بھی اللہ پر جھوٹا الزام لگانے والا ہے جو یہ سمجھے کہ کل کیا ہونے والا ہے، محمد اسے جانتے ہیں، جب کہ اللہ خود کہتا ہے «قل لا يعلم من في السموات والأرض الغيب إلا الله» کہ آسمان و زمین میں غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیر سورة النجم ١ (٤٨٥٥)، والتوحید ٤ (٧٣٨٠)، و ٤٦ (٧٥٣١)، صحیح مسلم/الإیمان ٧٧ (١٧٧) (تحفة الأشراف: ١٧٦١٣) (صحیح )
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3068
Masruq said that he was sitting in a reclined position in the house of Sayyidah Aisha (RA). She said to him, ‘There are three things such that if anyone speaks one of them then he forges a lie against Allah. (1) He who imagines that Muhammad saw his Lord forges a lie against Allah. Allah says: "Vision comprehends Him not, but He comprehends all vision. He is the Subtle, the Aware."(6:103) "And it is not (vouchsafed) to a mortal that Allah should speak to him, except by revelation or from behind a veil." (42 : 51) Masruq said that he had been sitting reclined but sat up straight and said, “O Mother of the Believers! Give me respite. Do not hurry. Did not Allah say: "And certainly he saw him yet another time." (53 : 15) "And certainly he saw him on the clear horizon." (81 : 23) She said, “By Allah, I was the first one to ask Allah’s Messenger ﷺ about it and he said: That, indeed, was Jibril. I did not see him in the bodily formin which he was created but twice. I saw him coming down from heaven and I saw his body blocking out everything between heaven and earth. -------------------------------------------------------------------------------- (2) And if anyone imagines that Muhammad concealed anything of what Allah revealed to him then he has indeed forged a lie against Allah who says: "O Messenger, convey that which has been revealed to you from your Lord." (5:67) -------------------------------------------------------------------------------- (3) And, he who imagines that he knows what will happen the next day forges a lie against Allah, for, Allah says: "None in the heavens and the earth knows the Unseen except Allah." -------------------------------------------------------------------------------- (27: 65) (This means that no one in the heavens and earth except Allah has knowledge). [Ahmed 26099, Bukhari 3234, Muslim 177]
Top