سنن الترمذی - قرآن کی تفسیر کا بیان - حدیث نمبر 3045
حدیث نمبر: 3045
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَمِينُ الرَّحْمَنِ مَلْأَى سَحَّاءُ لَا يُغِيضُهَا اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ ؟ فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَمِينِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِيَدِهِ الْأُخْرَى الْمِيزَانُ يَرْفَعُ وَيَخْفِضُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهَذَا الْحَدِيثُ فِي تَفْسِيرُ هَذِهِ الْآيَةِ وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ سورة المائدة آية 64 وَهَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَتْهُ الْأَئِمَّةُ نُؤْمِنُ بِهِ كَمَا جَاءَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُفَسَّرَ أَوْ يُتَوَهَّمَ، ‏‏‏‏‏‏هَكَذَا قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ مِنْهِمُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ تُرْوَى هَذِهِ الْأَشْيَاءُ وَيُؤْمَنُ بِهَا وَلَا يُقَالُ كَيْفَ.
تفسیر سورت مائدہ
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوتا ہے، (کبھی خالی نہیں ہوتا) بخشش و عطا کرتا رہتا ہے، رات و دن لٹانے اور اس کے دیتے رہنے سے بھی کمی نہیں ہوتی، آپ نے فرمایا: کیا تم لوگوں نے دیکھا (سوچا؟ ) جب سے اللہ نے آسمان پیدا کیے ہیں کتنا خرچ کرچکا ہے؟ اتنا کچھ خرچ کر چکنے کے باوجود اللہ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کچھ بھی کمی نہیں ہوئی۔ اس کا عرش پانی پر ہے، اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے وہ اسے بلند کرتا اور جھکاتا ہے (جسے چاہتا ہے زیادہ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کم) ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ یہ حدیث اس آیت «وقالت اليهود يد اللہ مغلولة غلت أيديهم ولعنوا بما قالوا بل يداه مبسوطتان ينفق كيف يشاء» ١ ؎ کی تفسیر ہے، اس حدیث کے بارے میں ائمہ دین کی روایت یہ ہے کہ ان پر ویسے ہی ایمان لائیں گے جیسے کہ ان کا ذکر آیا ہے، ان کی نہ کوئی تفسیر کی جائے گی اور نہ ہی کسی طرح کا وہم و قیاس لڑایا جائے گا۔ ایسا ہی بہت سے ائمہ کرام: سفیان ثوری، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ، ابن مبارک وغیرہم نے کہا ہے۔ یہ چیزیں ایسی ہی بیان کی جائیں گی جیسی بیان کی گئی ہیں اور ان پر ایمان رکھا جائے گا لیکن ان کی کیفیت کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا ٢ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیر ھود ٢ (٤٦٨٤)، والتوحید ١٩ (٧٤١١)، و ٢٢ (٧٤١٩)، صحیح مسلم/الزکاة ١١ (٩٩٣)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٩٧) (تحفة الأشراف: ١٣٨٦٣)، و مسند احمد (٢/٣١٣، ٥٠٠) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، انہی کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں اور ان کے اس قول کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی، بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے (المائدہ: ٦٤ ٢ ؎: یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے جن چیزوں کا ذکر کیا ہے اس کی نہ تو تاویل کی جائے گی اور نہ ہی کوئی تفسیر، یعنی یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کا ہاتھ ایسا ایسا ہے بلکہ جیسی اس کی ذات ہے ایسے ہی اس کا ہاتھ بھی ہے، اس کی کیفیت بیان کئے بغیر اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (197)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3045
Sayyidina Abu Hurairah (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ I said, “The right Hand of the Compossionate is full (of treasures) showering bounties day and night. There never is any loss at any time. Do you realise how much He has spent since He has created the heavns. It has not diminished what is in His Right Hand in the least. His Throne is on water. In His other Hand are the scales that He lowers and raises.” [Ahmed 10505,Bukhari 4684,Muslim 993]
Top