سنن الترمذی - قرآن کی تفسیر کا بیان - حدیث نمبر 3029
حدیث نمبر: 3029
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَجِيءُ الْمَقْتُولُ بِالْقَاتِلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَاصِيَتُهُ وَرَأْسُهُ بِيَدِهِ وَأَوْدَاجُهُ تَشْخَبُ دَمًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ يَا رَبِّ هَذَا قَتَلَنِي حَتَّى يُدْنِيَهُ مِنَ الْعَرْشِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَذَكَرُوا لِابْنِ عَبَّاسٍ التَّوْبَةَ فَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ سورة النساء آية 93، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا نُسِخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلَا بُدِّلَتْ وَأَنَّى لَهُ التَّوْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنَ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا: قیامت کے دن مقتول قاتل کو ساتھ لے کر آ جائے گا، اس کی پیشانی اور سر مقتول کے ہاتھ میں ہوں گے، مقتول کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، کہے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا، (یہ کہتا ہوا) اسے لیے ہوئے عرش کے قریب جا پہنچے گا۔ راوی کہتے ہیں: لوگوں نے ابن عباس ؓ سے توبہ کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم» ١ ؎ تلاوت کی، اور کہا کہ یہ آیت نہ منسوخ ہوئی ہے اور نہ ہی تبدیل، تو پھر اس کی توبہ کیوں کر قبول ہوگی؟ ٢ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اس حدیث کو بعض راویوں نے عمر بن دینار کے واسطہ سے ابن عباس سے اسی طرح روایت کی ہے اس کو مرفوع نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/المحاربة (تعظیم الدم) ٢ (٤٠١٠) (تحفة الأشراف: ٦٣٠٣) (وانظر أیضا: سنن النسائی/المحاربة ٢ (٤٠٠ ¤ ٤- ٤٠٠٩)، و ٤٨ (٤٨٧٠)، وسنن ابن ماجہ/الدیات ٢ (٢٦٢١)، و مسند احمد (١/٢٤٠، ٢٩٤، ٣٦٤) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا (النساء: ٩٣ ٢ ؎: کسی مومن کو عمداً اور ناحق قتل کرنے والے کی توبہ قبول ہوگی یا نہیں؟ اس بابت صحابہ میں اختلاف ہے، ابن عباس ؓ کی رائے ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی، ان کی دلیل یہی آیت ہے جوان کے بقول بالکل آخری آیت ہے، جس کو منسوخ کرنے والی کوئی آیت نہیں اتری، مگر جمہور صحابہ و سلف کی رائے ہے کہ قرآن کی دیگر آیات کا مفاد ہے کہ تمام گناہوں سے توبہ ہے، جب مشرک سے توبہ کرنے والی کی توبہ قبول ہوگی تو قاتل عمد کی توبہ کیوں قبول نہیں ہوگی۔ البتہ یہ ہے کہ اللہ مقتول کو راضی کردیں گے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشکاة (3465 / التحقيق الثاني)، التعليق الرغيب (3 / 203)، الصحيحة (2697)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3029
Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that the Prophet ﷺ said that on the Day of Resurrection, the murdered would drag the murderer by his forelocks and head, blood flowing from the neck of the murderer. The slain person would say, “O Lord! He had killed me”, and he will take him up to the throne. The narrator went on to say that people asked Sayyidina Ibn Abbas (RA) “Will his repentance not be accepted?” He recited the verse: "And whosoever slays a believer wilfully, his recompence is Hell ." (4: 93) He added, “This verse is neither abrogated nor changed. How then may his repentance be accepted?” [Ahmed 1941]
Top