سنن الترمذی - قرآن کی تفسیر کا بیان - حدیث نمبر 3011
حدیث نمبر: 3011
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِهِ:‏‏‏‏ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ سورة آل عمران آية 169، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ فَأُخْبِرْنَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَرْوَاحَهُمْ فِي طَيْرٍ خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ وَتَأْوِي إِلَى قَنَادِيلَ مُعَلَّقَةٍ بِالْعَرْشِ، ‏‏‏‏‏‏فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّكَ اطِّلَاعَةً، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُكُمْ ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ رَبَّنَا وَمَا نَسْتَزِيدُ وَنَحْنُ فِي الْجَنَّةِ نَسْرَحُ حَيْثُ شِئْنَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اطَّلَعَ إِلَيْهِمُ الثَّانِيَةَ فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُكُمْ ؟ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَمْ يُتْرَكُوا قَالُوا:‏‏‏‏ تُعِيدُ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا فَنُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سورت آل عمران کے متعلق
عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ان سے آیت «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل اللہ أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون» کی تفسیر پوچھی گئی تو انہوں نے کہا: لوگو! سن لو، ہم نے (رسول اللہ سے) اس کی تفسیر پوچھی تھی تو ہمیں بتایا گیا کہ شہداء کی روحیں سبز چڑیوں کی شکل میں ہیں، جنت میں جہاں چاہتی گھومتی پھرتی ہیں اور شام میں عرش سے لٹکی ہوئی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں۔ ایک بار تمہارے رب نے انہیں جھانک کر ایک نظر دیکھا اور پوچھا: تمہیں کوئی چیز مزید چاہیئے تو میں عطا کروں؟ انہوں نے کہا: رب! ہمیں مزید کچھ نہیں چاہیئے۔ ہم جنت میں جہاں چاہتی ہیں گھومتی ہیں۔ پھر (ایک دن) دوبارہ اللہ نے ان کی طرف جھانکا اور فرمایا: کیا تمہیں مزید کچھ چاہیئے تو میں عطا کر دوں؟ جب انہوں نے دیکھا کہ (اللہ دینے پر ہی تلا ہوا ہے، بغیر مانگے اور لیے) چھٹکارا نہیں ہے تو انہوں نے کہا: ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں دوبارہ لوٹا دے، تاکہ ہم دنیا میں واپس چلے جائیں۔ پھر تیری راہ میں دوبارہ قتل کئے جائیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإمارة (١٨٨٧)، سنن ابن ماجہ/الجھاد ١٦ (٢٨٠١) (تحفة الأشراف: ٩٥٧٠)، وسنن الدارمی/الجھاد ١٩ (٢٤٥٤) (صحیح )
قال الشيخ الألباني: (حديث مسروق عن عبد اللہ بن مسعود) صحيح، (حديث أبي عبيدة عن عبد اللہ بن مسعود الذي فيه زيادة) ضعيف الإسناد، ابن ماجة (2801)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3011
Sayyidina Abdullah Ibn Mas’ud (RA) was asked to explain the verse: Think not of those who were slain in Allah’s way as dead. Nay, they are alive. (3:169) He said, “Indeed we had asked about that and were informed that their souls are in green birds that go wherever they like in Paradise and return to the lamps suspended from the Throne. Your Lord looks at them out of familiarity and asks, ‘Do you desire anything more that I may give more?’ They say, ‘Our Lords what more may we seek while we are in Paradise moving about wherever we will?’ He then looks at them a second time, saying, ‘Do you desire Me to add something for you that I should give more?’ When they see that thay will not be spared (till they ask), they desire, ‘Return our souls to our bodies that we may go back to earth and be slain in Your path once more.." [Muslim 1887,Abu Dawud 2520, Ibn e Majah 2800]
Top