سنن الترمذی - قرآن کی تفسیر کا بیان - حدیث نمبر 2987
حدیث نمبر: 2987
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ، عَنْالْبَرَاءِ، وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ سورة البقرة آية 267، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَزَلَتْ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ كُنَّا أَصْحَابَ نَخْلٍ فَكَانَ الرَّجُلُ يَأْتِي مِنْ نَخْلِهِ عَلَى قَدْرِ كَثْرَتِهِ وَقِلَّتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ الرَّجُلُ يَأْتِي بِالْقِنْوِ وَالْقِنْوَيْنِ فَيُعَلِّقُهُ فِي الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أَهْلُ الصُّفَّة لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ أَحَدُهُمْ إِذَا جَاعَ أَتَى الْقِنْوَ فَضَرَبَهُ بِعَصَاهُ فَيَسْقُطُ مِنَ الْبُسْرِ وَالتَّمْرِ فَيَأْكُلُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ نَاسٌ مِمَّنْ لَا يَرْغَبُ فِي الْخَيْرِ يَأْتِي الرَّجُلُ بِالْقِنْوِ فِيهِ الشِّيصُ وَالْحَشَفُ وَبِالْقِنْوِ قَدِ انْكَسَرَ فَيُعَلِّقُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ تَعَالَى:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الأَرْضِ وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ سورة البقرة آية 267، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أُهْدِيَ إِلَيْهِ مِثْلُ مَا أَعْطَاهُ لَمْ يَأْخُذْهُ إِلَّا عَلَى إِغْمَاضٍ أَوْ حَيَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَكُنَّا بَعْدَ ذَلِكَ يَأْتِي أَحَدُنَا بِصَالِحِ مَا عِنْدَهُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو مَالِكٍ هُوَ الْغِفَارِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ اسْمُهُ غَزْوَانُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ السُّدِّيِّ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
سورت بقرہ کے متعلق
براء ؓ کہتے ہیں کہ آیت «ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون» ١ ؎ ہم گروہ انصار کے بارے میں اتری ہے۔ ہم کھجور والے لوگ تھے، ہم میں سے کوئی آدمی اپنی کھجوروں کی کم و بیش پیداوار و مقدار کے اعتبار سے زیادہ یا تھوڑا لے کر رسول اللہ کے پاس آتا۔ بعض لوگ کھجور کے ایک دو گچھے لے کر آتے، اور انہیں مسجد میں لٹکا دیتے، اہل صفہ کے کھانے کا کوئی بندوبست نہیں تھا تو ان میں سے جب کسی کو بھوک لگتی تو وہ گچھے کے پاس آتا اور اسے چھڑی سے جھاڑتا کچی اور پکی کھجوریں گرتیں پھر وہ انہیں کھا لیتا۔ کچھ لوگ ایسے تھے جنہیں خیر سے رغبت و دلچسپی نہ تھی، وہ ایسے گچھے لاتے جس میں خراب، ردی اور گلی سڑی کھجوریں ہوتیں اور بعض گچھے ٹوٹے بھی ہوتے، وہ انہیں لٹکا دیتے۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیت «يا أيها الذين آمنوا أنفقوا من طيبات ما کسبتم ومما أخرجنا لکم من الأرض ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون ولستم بآخذيه إلا أن تغمضوا فيه» ٢ ؎ نازل فرمائی۔ لوگوں نے کہا کہ اگر تم میں سے کسی کو ویسا ہی ہدیہ دیا جائے جیسا دین سے بیزار لوگوں نے رسول اللہ کو دیا تو وہ اسے نہیں لے گا اور لے گا بھی تو منہ موڑ کر، اس کے بعد ہم میں سے ہر شخص اپنے پاس موجود عمدہ چیز میں سے لانے لگا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ٢ - سفیان ثوری نے سدی سے اس روایت میں سے کچھ روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: ١٩١١) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا (البقرہ: ٢٦٧ ٢ ؎: اے ایمان والو اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو، ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصدہ نہ کرنا جسے تم خود لینے والے نہیں ہو، الاّ یہ کہ اگر آنکھیں بند کرلو تو (البقرہ: ٢٦٧
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1822)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2987
Sayyidina Bara (RA) narrated: The verse; “And do not even aim at getting anything which is bad, in order that out of it ye may give away something.” (2: 267) was revealed concerning us, the company of the Ansars. We owned gardens of date trees. Each man would bring dates according to his ability - much or little. He would bring a bunch or two bunches and hang them in the mosque. The ahl us-suffah had no (regular arrangement of) food. When any of them was hungry, he would come to the bunch and strike it with his staff, and dry and fresh dates would drop down and he would eat. There were (such) men too who were not motivated to good, so a man would bring a bunch which had bad dates, or a broken bunch, and hang it. So Allah the Blessed and Exalted revealed: “O ye who believe! Give of the good things which ye have (honourably) earned, and of the fruits of the earth which We have produced for you, and do not even aim at getting anything which is bad, in order that out of it ye may give away something, when ye yourselves would not receive it except with closed eyes.” (2 : 267) ‘If one of you were presented like what he gives, he would not take it unless he covers up the shortcoming or shows undue modesty.” The narrator said: After that each of us brought the good of what he had. [Ahmed 24031, Ibn e Majah 1822]
Top