ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورة فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے، وہ نماز ناقص ہے، نامکمل ہے ١ ؎ عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے کہا: ابوہریرہ! میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں؟ انہوں نے کہا: فارسی لڑکے! اسے اپنے جی میں (دل ہی دل میں) پڑھ لیا کرو ٢ ؎ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز ٣ ؎ اپنے اور بندے کے درمیان دو حصوں میں بانٹ دی ہے۔ آدھی نماز میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو مانگے۔ میرا بندہ پڑھتا ہے: «الحمد لله رب العالمين» تو اللہ کہتا ہے: میرے بندے نے میری حمد یعنی تعریف کی۔ بندہ کہتا ہے: «الرحمن الرحيم» تو اللہ کہتا ہے: میرے بندے نے میری ثنا کی، بندہ «مالک يوم الدين» کہتا ہے تو اللہ کہتا ہے: میرے بندے نے میری عظمت اور بزرگی بیان کی اور عظمت اور بزرگی صرف میرے لیے ہے، اور میرے اور میرے بندے کے درمیان «إياک نعبد وإياک نستعين» سے لے کر سورة کی آخری آیات تک ہیں، اور بندے کے لیے وہ سب کچھ ہے جو وہ مانگے۔ بندہ کہتا ہے «اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين» ہمیں سیدھی اور سچی راہ دکھا، ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - شعبہ، اسماعیل بن جعفر اور کئی دوسرے رواۃ نے ایسی ہی حدیث علاء بن عبدالرحمٰن سے، علاء نے اپنے باپ سے اور ان کے باپ نے ابوہریرہ ؓ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ١ (٣٩٥)، سنن ابی داود/ الصلاة ١٣٦ (٨٢١)، سنن النسائی/الإفتتاح ٢٣ (٩١٠)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١ (٨٣٨) (تحفة الأشراف: ١٤٠٨٠)، وط/الصلاة ٩ (٣٩)، و مسند احمد (٢/٢٤١، ٢٥٠، ٢٨٥، ٤٥٧) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: معلوم ہوا کہ سورة فاتحہ ہر نماز اور نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جائے گی، کیونکہ اس کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔ ٢ ؎: نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد حدیث کے سب سے بڑے راوی اور جانکار صحابی ابوہریرہ ؓ کا یہ قول اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ ہر رکعت میں سورة فاتحہ خواہ امام کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو پڑھنی فرض ہے اور یہ کہ یہ مسئلہ منسوخ نہیں ہوا ہے۔ ٣ ؎: فرمایا تو تھا میں نے نماز کو اپنے اور بندے کے درمیان آدھا آدھا بانٹ دیا ہے، اور جب اس تقسیم کی تفصیل بیان کی تو سورة فاتحہ کا نام لیا اور اس کی تقسیم بتائی، پتا چلا کہ صلاۃ فاتحہ ہے، اور فاتحہ صلاۃ ہے، یعنی فاتحہ نماز کا ایسا رنگ ہے جو نماز کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس کا آدھا حصہ اللہ کی حمد و ثنا اور اس کی رحمت و ربوبیت اور عدل و بادشاہت کے بیان میں ہے اور آدھا حصہ دعا و مناجات پر مشتمل ہے جسے بندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (838)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2953
ابن جریج اور مالک بن انس علاء بن عبدالرحمٰن سے علاء نے ہشام بن زہر کے آزاد کردہ غلام ابوسائب سے اور ابوسائب نے ابوہریرہ ؓ سے نبی ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے -
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (838)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2953
ابن ابی اویس نے اپنے باپ ابواویس سے اور ابواویس نے علاء بن عبدالرحمٰن سے روایت کی ہے، انہوں نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی