جندب بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے (اور اپنی صواب دید) سے کی، اور بات صحیح و درست نکل بھی گئی تو بھی اس نے غلطی کی ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث غریب ہے، ٢ - بعض محدثین نے سہیل بن ابی حزم کے بارے کلام کیا ہے، ٣ - اسی طرح بعض اہل علم صحابہ اور دوسروں سے مروی ہے کہ انہوں نے سختی سے اس بات سے منع کیا ہے کہ قرآن کی تفسیر بغیر علم کے کی جائے، لیکن مجاہد، قتادہ اور ان دونوں کے علاوہ بعض اہل علم کے بارے میں جو یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے قرآن کی تفسیر (بغیر علم کے) کی ہے تو یہ کہنا درست نہیں، ایسے (ستودہ صفات) لوگوں کے بارے میں یہ بدگمانی نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے قرآن کے بارے میں جو کچھ کہا ہے یا انہوں نے قرآن کی جو تفسیر کی ہے یہ بغیر علم کے یا اپنے جی سے کی ہے، ٤ - ان ائمہ سے ایسی باتیں مروی ہیں جو ہمارے اس قول کو تقویت دیتی ہیں کہ انہوں نے کوئی بات بغیر علم کے اپنی جانب سے نہیں کہی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ العلم ٥ (٣٦٥٢) (تحفة الأشراف: ٣٢٦٢) (ضعیف) (سند میں سہیل ضعیف راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشکاة (235)، نقد التاج //، ضعيف أبي داود (789 / 3652) //
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2952
قتادہ کہتے ہیں کہ قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کی تفسیر میں میں نے کوئی بات (یعنی کوئی روایت) نہ سنی ہو۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: ١٩٢٦٢) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشکاة (235)، نقد التاج //، ضعيف أبي داود (789 / 3652) //
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2952
مجاہد کہتے ہیں کہ اگر میں نے ابن مسعود کی قرأت پڑھی ہوتی تو مجھے قرآن سے متعلق ابن عباس ؓ سے وہ بہت سی باتیں پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آئی ہوتی جو میں نے ان سے پوچھیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: ١٩٢٦٣) (صحیح )
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشکاة (235)، نقد التاج //، ضعيف أبي داود (789 / 3652) //
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2952