سنن الترمذی - فیصلوں کا بیان - حدیث نمبر 1383
حدیث نمبر: 1383
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ عَنْ نَافِعٍ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَلَ أَهْلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ،‏‏‏‏ وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،‏‏‏‏ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ،‏‏‏‏ لَمْ يَرَوْا بِالْمُزَارَعَةِ بَأْسًا عَلَى النِّصْفِ وَالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ،‏‏‏‏ وَاخْتَارَ بَعْضُهُمْ أَنْ يَكُونَ الْبَذْرُ مِنْ رَبِّ الْأَرْضِ،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ أَحْمَدَ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق،‏‏‏‏ وَكَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمُزَارَعَةَ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ،‏‏‏‏ وَلَمْ يَرَوْا بِمُسَاقَاةِ النَّخِيلِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ بَأْسًا،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيِّ،‏‏‏‏ وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يَصِحَّ شَيْءٌ مِنَ الْمُزَارَعَةِ،‏‏‏‏ إِلَّا أَنْ يَسْتَأْجِرَ الْأَرْضَ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ.
کھیتی باڑی کرنا
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم نے خیبر والوں کے ساتھ خیبر کی زمین سے جو بھی پھل یا غلہ حاصل ہوگا اس کے آدھے پر معاملہ کیا ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں انس، ابن عباس، زید بن ثابت اور جابر ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ آدھے، تہائی یا چوتھائی کی شرط پر مزارعت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، ٤ - اور بعض اہل علم نے یہ اختیار کیا ہے کہ بیج زمین والا دے گا، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ٥ - بعض اہل علم نے تہائی یا چوتھائی کی شرط پر مزارعت کو مکروہ سمجھا ہے، لیکن وہ تہائی یا چوتھائی کی شرط پر کھجور کے درختوں کی سینچائی کرانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔ مالک بن انس اور شافعی کا یہی قول ہے، ٦ - بعض لوگ مطلقًا مزارعت کو درست نہیں سمجھتے البتہ سونے یا چاندی (نقدی) کے عوض کرایہ پر زمین لینے کو درست سمجھتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحرث ٨ (٢٣٢٨)، ٩ (٢٣٢٩)، صحیح مسلم/المساقاة ١ (البیوع ٢٢)، (١٥٥١)، سنن ابی داود/ البیوع ٣٥ (٣٤٠٨)، سنن النسائی/الأیمان والمزارعة ٤٦ (٣٩٦١، ٣٩٦٢)، سنن ابن ماجہ/الرہون ١٤ (٣٤٦٧)، (تحفة الأشراف: ٨١٣٨)، و مسند احمد (٢/١٧، ٢٢، ٣٧) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اس حدیث سے مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا جواز ثابت ہوتا ہے، ائمہ ثلاثہ اور دیگر علمائے سلف و خلف سوائے امام ابوحنیفہ کے جواز کے قائل ہیں، احناف نے خیبر کے معاملے کی تاویل یہ کی ہے کہ یہ لوگ آپ کے غلام تھے، لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ آپ کا ارشاد گرامی ہے «نقرکم ما أقرکم الله» ہم تمہیں اس وقت تک برقرار رکھیں گے جب تک اللہ تمہیں برقرار رکھے گا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے غلام نہیں تھے، نیز احناف کا کہنا ہے کہ یہ معدوم یا مجہول پیداوار کے بدلے اجارہ ہے جو جائز نہیں، اس کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ اس کی مثال مضارب کی ہے کہ مضارب جس طرح نفع کی امید پر محنت کرتا ہے اور وہ نفع مجہول ہے اس کے باوجود وہ جائز ہے، اسی طرح مزارعت میں بھی یہ جائز ہوگا، رہیں وہ روایات جو مزارعت کے عدم جواز پر دلالت کرتی ہیں تو جمہور نے ان روایات کی تاویل کی ہے کہ یہ روایات نہی تنزیہی پر دلالت کرتی ہیں، یا یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب صاحب زمین کسی مخصوص حصے کی پیداوار خود لینے کی شرط کرلے «واللہ اعلم» حاصل بحث یہ ہے کہ مزارعت کی جائز شکل یہ ہے کہ مالک اور بٹائی پر لینے والے کے مابین زمین سے حاصل ہونے والے غلہ کی مقدار اس طرح متعین ہو کہ دونوں کے مابین جھگڑے کی نوبت نہ آئے اور غلہ سے متعلق نقصان اور فائدہ میں طے شدہ امر کے مطابق دونوں شریک ہوں یا روپے کے عوض زمین بٹائی پر دی جائے اور مزارعت کی وہ شکل جو شرعاً ناجائز ہے وہ حنظلہ بن قیس انصاری کی روایت میں ہے، وہ کہتے ہیں رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ کے زمانے میں زمین کی بٹائی کا معاملہ اس شرط پر کرتے تھے کہ زمین کے اس مخصوص حصے کی پیداوار میں لوں گا اور باقی حصے کی تم لینا، تو نبی اکرم نے اس سے منع فرما دیا کیونکہ اس صورت میں کبھی بٹائی پر لینے والے کا نقصان ہوتا کبھی دینے والے کا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2467)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1383
Sayyidina lbn Umar reported that the Prophet ﷺ gave land to the people of Khaybar on condition that they give to him half share of the produce, whether fruit or other cultivation. [Bukhari 2329, Muslim 1551] --------------------------------------------------------------------------------
Top