سنن الترمذی - فیصلوں کا بیان - حدیث نمبر 1351
حدیث نمبر: 1351
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ،‏‏‏‏ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْعُمْرَى جَائِزَةٌ لِأَهْلِهَا،‏‏‏‏ وَالرُّقْبَى جَائِزَةٌ لِأَهْلِهَا . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ،‏‏‏‏ وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ،‏‏‏‏ بِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ جَابِرٍ،‏‏‏‏ مَوْقُوفًا وَلَمْ يَرْفَعْهُ،‏‏‏‏ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ،‏‏‏‏ أَنَّ الرُّقْبَى جَائِزَةٌ مِثْلَ الْعُمْرَى،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ أَحْمَدَ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق،‏‏‏‏ وَفَرَّقَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ،‏‏‏‏ بَيْنَ الْعُمْرَى،‏‏‏‏ وَالرُّقْبَى،‏‏‏‏ فَأَجَازُوا الْعُمْرَى،‏‏‏‏ وَلَمْ يُجِيزُوا الرُّقْبَى. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَتَفْسِيرُ الرُّقْبَى:‏‏‏‏ أَنْ يَقُولَ هَذَا الشَّيْءُ لَكَ مَا عِشْتَ،‏‏‏‏ فَإِنْ مُتَّ قَبْلِي فَهِيَ رَاجِعَةٌ إِلَيَّ،‏‏‏‏ وَقَالَ أَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق،‏‏‏‏ الرُّقْبَى مِثْلُ الْعُمْرَى،‏‏‏‏ وَهِيَ لِمَنْ أُعْطِيَهَا،‏‏‏‏ وَلَا تَرْجِعُ إِلَى الْأَوَّلِ.
رقبیٰ
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: عمریٰ جس کو دیا گیا اس کے گھر والوں کا ہے اور رقبیٰ ١ ؎ بھی جس کو دیا گیا ہے اس کے گھر والوں کا ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - اور بعض نے اسی سند سے ابوزبیر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اسے جابر سے موقوفاً نقل کیا ہے، اسے نبی اکرم تک مرفوع نہیں کیا ہے، ٣ - رقبیٰ کی تفسیر یہ ہے کہ کوئی آدمی کہے کہ یہ چیز جب تک تم زندہ رہو گے تمہاری ہے اور اگر تم مجھ سے پہلے مرگئے تو یہ پھر میری طرف لوٹ آئے گی، ٤ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ عمریٰ کی طرح رقبیٰ بھی جسے دیا گیا ہے اس کے گھر والوں ہی کا ہوگا۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ اور اہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے عمریٰ اور رقبیٰ کے درمیان فرق کیا ہے، ان لوگوں نے عمریٰ کو تو معمر (جس کے نام چیز دی گئی تھی) کی موت کے بعد اس کے ورثاء کا حق بتایا ہے اور رقبیٰ کو کہا ہے کہ ورثاء کا حق نہیں ہوگا بلکہ وہ دینے والی کی طرف لوٹ جائے گا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: ٢٧٠٥) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: «رقبیٰ»، «رقب» سے ہے جس کے معنی انتظار کے ہیں۔ اسلام نے اس میں اتنی تبدیلی کی کہ وہ چیز موہوب لہ (جس کو وہ چیز دی گئی) کی ہی رہے گی۔ موہوب لہ کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کو وراثت میں تقسیم ہوگی۔ واہب کو بھی نہیں لوٹے گی، جیسے عمریٰ میں ہے۔ رقبیٰ میں یہ ہوتا تھا کہ ہبہ کرنے والا یوں کہتا کہ یہ چیز میں نے تم کو تمہاری عمر تک دے دی، تمہاری موت کے بعد یہ چیز مجھے لوٹ آئے گی، اور اگر میں مرگیا تو تمہاری ہی رہے گی، پھر تم مرجاؤ گے تو میرے وارثوں کو لوٹ آئے گی۔ اب ہر ایک دوسرے کی موت کا انتظار کیا کرتا تھا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2383)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1351
Sayyidina Jabir (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “Umra is lawful (and it belongs to him to whom it is given), and ruqba is also lawful (and is his to whom it is donated).” [Abu Dawud 3558, Nisai 3742] --------------------------------------------------------------------------------
Top