مسند امام احمد - بنی سلیط کے ایک شیخ کی حدیثیں - حدیث نمبر 16843
حدیث نمبر: 684
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تَقَدَّمُوا الشَّهْرَ بِيَوْمٍ وَلَا بِيَوْمَيْنِ إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ ذَلِكَ صَوْمًا كَانَ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ، ‏‏‏‏‏‏صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَعُدُّوا ثَلَاثِينَ ثُمَّ أَفْطِرُوا . رَوَى مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ الَّنَبِيِّ صَلى الله عليه وسَلم بِنَحْوِ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا أَنْ يَتَعَجَّلَ الرَّجُلُ بِصِيَامٍ قَبْلَ دُخُولِ شَهْرِ رَمَضَانَ لِمَعْنَى رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يَصُومُ صَوْمًا فَوَافَقَ صِيَامُهُ ذَلِكَ فَلَا بَأْسَ بِهِ عِنْدَهُمْ.
رمضان کے استقبال کی نیت سے روزے نہ رکھے
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا: اس ماہ (رمضان) سے ایک یا دو دن پہلے (رمضان کے استقبال کی نیت سے) روزے نہ رکھو ١ ؎، سوائے اس کے کہ اس دن ایسا روزہ آپڑے جسے تم پہلے سے رکھتے آ رہے ہو ٢ ؎ اور (رمضان کا) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا) چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنا بند کرو۔ اگر آسمان ابر آلود ہوجائے تو مہینے کے تیس دن شمار کرلو، پھر روزہ رکھنا بند کرو ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- ابوہریرہ ؓ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں بعض صحابہ کرام سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے۔ وہ اس بات کو مکروہ سمجھتے ہیں کہ آدمی ماہ رمضان کے آنے سے پہلے رمضان کے استقبال میں روزے رکھے، اور اگر کسی آدمی کا (کسی خاص دن میں) روزہ رکھنے کا معمول ہو اور وہ دن رمضان سے پہلے آپڑے تو ان کے نزدیک اس دن روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف: ١٥٠٥٧) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصوم ١٤ (١٩١٤)، صحیح مسلم/الصیام ٣ (١٠٨٢)، سنن ابی داود/ الصیام ١١ (٢٣٣٥)، سنن النسائی/الصیام ٣١ (٢١٧٤)، و ٣٨ (٢١٨٩)، سنن ابن ماجہ/الصیام ٥ (١٦٠)، مسند احمد (٢/٢٣٤، ٣٤٧، ٤٠٨، ٤٣٨، ٤٧٧، ٤٩٧، ٥١٣)، سنن الدارمی/الصوم ٤ (١٧٣١)، من غیر ہذا الطریق۔
وضاحت: ١ ؎: اس ممانعت کی حکمت یہ ہے کہ فرض روزے نفلی روزوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہوجائیں اور کچھ لوگ انہیں فرض نہ سمجھ بیٹھیں، لہٰذا تحفظ حدود کے لیے نبی اکرم نے جانبین سے روزہ منع کردیا کیونکہ امم سابقہ میں اس قسم کے تغیر وتبدل ہوا کرتے تھے جس سے زیادتی فی الدین کی راہ کھلتی تھی، اس لیے اس سے منع کردیا۔ ٢ ؎: مثلاً پہلے سے جمعرات یا پیر یا ایام بیض کے روزے رکھنے کا معمول ہو اور یہ دن اتفاق سے رمضان سے دو یا ایک دن پہلے آ جائے تو اس کا روزہ رکھا جائے کہ یہ استقبال رمضان میں سے نہیں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1650 و 1655)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 684
Top