سنن الترمذی - طہارت جو مروی ہیں رسول اللہ ﷺ سے - حدیث نمبر 27
حدیث نمبر: 27
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ،‏‏‏‏ وَجَرِيرٌ،‏‏‏‏ عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا تَوَضَّأْتَ فَانْتَثِرْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا اسْتَجْمَرْتَ فَأَوْتِرْ . قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ،‏‏‏‏ وَلَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَالْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ،‏‏‏‏ وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ حَدِيثُ سَلَمَةَ بْنِ قَيْسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَنْ تَرَكَ الْمَضْمَضَةَ وَالِاسْتِنْشَاقَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ إِذَا تَرَكَهُمَا فِي الْوُضُوءِ حَتَّى صَلَّى، ‏‏‏‏‏‏أَعَادَ الصَّلَاةَ وَرَأَوْا ذَلِكَ فِي الْوُضُوءِ وَالْجَنَابَةِ سَوَاءً وَبِهِ. يَقُولُ ابْنُ أَبِي لَيْلَى،‏‏‏‏ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق،‏‏‏‏ وقَالَ أَحْمَدُ:‏‏‏‏ الِاسْتِنْشَاقُ أَوْكَدُ مِنَ الْمَضْمَضَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ يُعِيدُ فِي الْجَنَابَةِ وَلَا يُعِيدُ فِي الْوُضُوءِ،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَبَعْضِ أَهْلِ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ طَائِفَةٌ:‏‏‏‏ لَا يُعِيدُ فِي الْوُضُوءِ وَلَا فِي الْجَنَابَةِ لِأَنَّهُمَا سُنَّةٌ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا تَجِبُ الْإِعَادَةُ عَلَى مَنْ تَرَكَهُمَا فِي الْوُضُوءِ وَلَا فِي الْجَنَابَةِ،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيِّ فِي آخِرَةٍ.
کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا
سلمہ بن قیس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: جب تم وضو کرو تو ناک جھاڑو اور جب ڈھیلے سے استنجاء کرو تو طاق ڈھیلے لو ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- اس باب میں عثمان، لقیط بن صبرہ، ابن عباس، مقدام بن معدیکرب، وائل بن حجر اور ابوہریرہ ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- سلمہ بن قیس والی حدیث حسن صحیح ہے، ٣- جو کلی نہ کرے اور ناک میں پانی نہ چڑھائے اس کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے: ایک گروہ کا کہنا ہے کہ جب کوئی ان دونوں چیزوں کو وضو میں چھوڑ دے اور نماز پڑھ لے تو وہ نماز کو لوٹائے ١ ؎ ان لوگوں کی رائے ہے کہ وضو اور جنابت دونوں میں یہ حکم یکساں ہے، ابن ابی لیلیٰ، عبداللہ بن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں، امام احمد (مزید) کہتے ہیں کہ ناک میں پانی چڑھانا کلی کرنے سے زیادہ تاکیدی حکم ہے، اور اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جنابت میں کلی نہ کرنے اور ناک نہ جھاڑنے کی صورت میں نماز لوٹائے اور وضو میں نہ لوٹائے ٢ ؎ یہ سفیان ثوری اور بعض اہل کوفہ کا قول ہے، ایک گروہ کا کہنا ہے کہ نہ وضو میں لوٹائے اور نہ جنابت میں کیونکہ یہ دونوں چیزیں مسنون ہیں، تو جو انہیں وضو اور جنابت میں چھوڑ دے اس پر نماز لوٹانا واجب نہیں، یہ مالک اور شافعی کا آخری قول ہے ٣ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطہارة ٧٢ (٨٩) سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤٤ (٤٠٦) (تحفة الأشراف: ٤٥٥٦) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: کیونکہ ان کے نزدیک یہ دونوں عمل وضو اور غسل دونوں میں فرض ہیں، ان کی دلیل یہی حدیث ہے، اس میں امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے، اور امر کا صیغہ وجوب پر دلالت کرتا ہے، الا یہ کہ کوئی قرینہ ایسا قرینہ موجود ہو جس سے امر کا صیغہ حکم اور وجوب کے معنی سے استحباب کے معنی میں بدل جائے جو ان کے بقول یہاں نہیں ہے، صاحب تحفۃ الاحوذی اسی کے موید ہیں۔ ٢ ؎: ان لوگوں کے یہاں یہ دونوں عمل وضو میں مسنون اور جنابت میں واجب ہیں کیونکہ جنابت میں پاکی میں مبالغہ کا حکم ہے۔ ٣ ؎: یہی جمہور علماء کا قول ہے کیونکہ عطاء کے سوا کسی بھی صحابی یا تابعی سے یہ منقول نہیں ہے کہ وہ بغیر کلی اور ناک جھاڑے پڑھی ہوئی نماز دہرانے کے قائل ہو، گویا یہ مسنون ہوا فرض اور واجب نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (406)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 27
Salamah ibn Qays (RA) said that Allahs Messenger(Peace be upon him) said,"When you make ablution, snuff up water and when you use stone for istinja use an odd number."
Top