سنن الترمذی - طہارت جو مروی ہیں رسول اللہ ﷺ سے - حدیث نمبر 138
حدیث نمبر: 138
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الثَّوْبِ يُصِيبُهُ الدَّمُ مِنَ الْحَيْضَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ حُتِّيهِ ثُمَّ اقْرُصِيهِ بِالْمَاءِ ثُمَّ رُشِّيهِ وَصَلِّي فِيهِ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَأُمِّ قَيْسِ بْنتِ مِحْصَنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَسْمَاءَ فِي غَسْلِ الدَّمِ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الدَّمِ يَكُونُ عَلَى الثَّوْبِ فَيُصَلِّي فِيهِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ:‏‏‏‏ إِذَا كَانَ الدَّمُ مِقْدَارَ الدِّرْهَمِ فَلَمْ يَغْسِلْهُ وَصَلَّى فِيهِ أَعَادَ الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ إِذَا كَانَ الدَّمُ أَكْثَرَ مِنْ قَدْرِ الدِّرْهَمِ أَعَادَ الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،‏‏‏‏ وَابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يُوجِبْ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ عَلَيْهِ الْإِعَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ أَكْثَرَ مِنْ قَدْرِ الدِّرْهَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ يَجِبُ عَلَيْهِ الْغَسْلُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ أَقَلَّ مِنْ قَدْرِ الدِّرْهَمِ وَشَدَّدَ فِي ذَلِكَ.
کپڑے سے حیض کا خون دھونے کے بارے میں
اسماء بنت ابی بکر ؓ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم سے اس کپڑے کے بارے میں پوچھا جس میں حیض کا خون لگ جائے، تو آپ نے فرمایا: اسے کھرچ دو، پھر اسے پانی سے مل دو، پھر اس پر پانی بہا دو اور اس میں نماز پڑھو ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- خون کے دھونے کے سلسلے میں اسماء ؓ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ اور ام قیس بنت محصن ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- کپڑے میں جو خون لگ جائے اور اسے دھونے سے پہلے اس میں نماز پڑھ لے … اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے ؛ تابعین میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب خون درہم کی مقدار میں ہو اور دھوے بغیر نماز پڑھ لے تو نماز دہرائے ١ ؎، اور بعض کہتے ہیں کہ جب خون درہم کی مقدار سے زیادہ ہو تو نماز دہرائے ورنہ نہیں، یہی سفیان ثوری اور ابن مبارک کا قول ہے ٢ ؎ اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے نماز کے دہرانے کو واجب نہیں کہا ہے گرچہ خون درہم کی مقدار سے زیادہ ہو، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں ٣ ؎، جب کہ شافعی کہتے ہیں کہ اس پر دھونا واجب ہے گو درہم کی مقدار سے کم ہو، اس سلسلے میں انہوں نے سختی برتی ہے ٤ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ٦٣ (٢٢٧)، والحیض ٩ (٣٠٧)، صحیح مسلم/الطہارة ٣٣ (٢٩١)، و ١٣٢ (٢٩١)، سنن ابی داود/ الطہارة ١٣٢ (٣٦٠)، سنن النسائی/الطہارة ١٨٥ (٢٩٤)، والحیض ٢٦ (٣٩٤)، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١٨ (٦٢٩)، ( تحفة الأشراف: ١٥٧٤٤)، موطا امام مالک/الطہارة ٢٨ (١٠٣)، سنن الدارمی/الطہارة ٨٢ (٧٩٩) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: سنن دارقطنی میں اس سلسلہ میں ابوہریرہ ؓ سے ایک حدیث بھی آئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں «إذا کان في الثوب قدر الدرهم من الدم غسل الثوب وأعيدت الصلاة» امام بخاری نے اس حدیث کو باطل کہا ہے کیونکہ اس میں ایک راوی روح بن غطیف منکر الحدیث ہے۔ ٢ ؎: اور یہی قول امام ابوحنیفہ کا بھی ہے، وہ کہتے ہیں کہ قلیل نجاست سے بچ پانا ممکن نہیں اس لیے ان لوگوں نے اسے معفوعنہ کے درجہ میں قرار دیا ہے اور اس کی تحدید درہم کی مقدار سے کی ہے اور یہ تحدید انہوں نے مقام استنجاء سے اخذ کی ہے۔ ٣ ؎: ان لوگوں کی دلیل جابر ؓ کی حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں «إن النبي صلی اللہ عليه وسلم کان في غزوة ذات الرقاع فرمی رجل بسهم فنزفه الدم فرکع وسجد ومضی في صلاته» لیکن جسم سے نکلنے والے عام خون، اور حیض کے خون میں فرق بالکل ظاہر ہے۔ ٤ ؎: کیونکہ امام شافعی نجاست میں تفریق کے قائل نہیں ہیں، نجاست کم ہو یا زیادہ دونوں صورتوں میں ان کے نزدیک دھونا ضروری ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں جو نص ہے ( وہ یہی حدیث ہے ) وہ مطلق ہے اس میں کم و زیادہ کی کوئی تفصیل نہیں اور یہی راجح قول ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (629)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 138
Sayyidah Asma bint Abu Bakr(RA) reported that a woman asked the Prophet ﷺ the garment on which are stains of blood of menses. He said, "Scratch it (with your finger and rub it with water. Then pour water over it and offer Salah wearing it.
Top