سنن الترمذی - دیت کا بیان - حدیث نمبر 1407
حدیث نمبر: 1407
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قُتِلَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدُفِعَ الْقَاتِلُ إِلَى وَلِيِّهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ الْقَاتِلُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَمَا إِنَّهُ إِنْ كَانَ قَوْلُهُ صَادِقًا فَقَتَلْتَهُ دَخَلْتَ النَّارَ ،‏‏‏‏ فَخَلَّى عَنْهُ الرَّجُلُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ مَكْتُوفًا بِنِسْعَةٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَكَانَ يُسَمَّى:‏‏‏‏ ذَا النِّسْعَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،‏‏‏‏ وَالنِّسْعَةُ حَبْلٌ.
مقتول کے ولی کو اختیار ہے چاہے تو قصاص لے ورنہ معاف کردے
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے زمانے میں ایک آدمی قتل کردیا گیا، تو قاتل مقتول کے ولی (وارث) کے سپرد کردیا گیا، قاتل نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں نے اسے قصداً قتل نہیں کیا ہے، رسول اللہ نے فرمایا: خبردار! اگر وہ (قاتل) اپنے قول میں سچا ہے پھر بھی تم نے اسے قتل کردیا تو تم جہنم میں جاؤ گے ١ ؎، چناچہ مقتول کے ولی نے اسے چھوڑ دیا، وہ آدمی رسی سے بندھا ہوا تھا، تو وہ رسی گھسیٹتا ہوا باہر نکلا، اس لیے اس کا نام ذوالنسعہ (رسی یا تسمے والا) رکھ دیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اور «نسعہ»: رسی کو کہتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الدیات ٣ (٤٤٩٨)، سنن النسائی/القسامة ٥ (٤٧٢٦)، سنن ابن ماجہ/الدیات ٣٤ (٢٦٩٠)، (تحفة الأشراف: ١٢٥٠٧) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: کیونکہ قاتل اپنے دعویٰ میں اگر سچا ہے تو اسے قتل کردینے کی صورت میں ولی کے گناہ گار ہونے کا خدشہ ہے، اس لیے اس کا نہ قتل کرنا زیادہ مناسب ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2690)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1407
Sayyidina Abu Huraryrah (RA) reported that a man killed someone in the era of Allah’s Messenger ﷺ . He was handed over to the guardian of the slain man. The murderer pleaded, “O Messenger of Allah ﷺ , by Allah! I had no intention to kill him.” Allah’s Messenger ﷺ said, “Know that if he is true and you kill him (in retaliation) then you will go to the Fire.” So, he forgave him. His hands were bound at the back with laces and he came out pulling at them. So, he came to be called dhun nis’ah (one with laces). [Abu Dawud 4498, Nisai 4736, Abu Dawud 2690]
Top