سنن الترمذی - خرید وفروخت کا بیان - حدیث نمبر 1264
حدیث نمبر: 1264
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، عَنْ شَرِيكٍ، وَقَيْسٌ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَدِّ الْأَمَانَةَ إِلَى مَنِ ائْتَمَنَكَ وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَكَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ إِذَا كَانَ لِلرَّجُلِ عَلَى آخَرَ شَيْءٌ فَذَهَبَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَوَقَعَ لَهُ عِنْدَهُ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَحْبِسَ عَنْهُ بِقَدْرِ مَا ذَهَبَ لَهُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَخَّصَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنْ كَانَ لَهُ عَلَيْهِ دَرَاهِمُ، ‏‏‏‏‏‏فَوَقَعَ لَهُ عِنْدَهُ دَنَانِيرُ فَلَيْسَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَحْبِسَ بِمَكَانِ دَرَاهِمِهِ إِلَّا أَنْ يَقَعَ عِنْدَهُ لَهُ دَرَاهِمُ فَلَهُ حِينَئِذٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَحْبِسَ مِنْ دَرَاهِمِهِ بِقَدْرِ مَا لَهُ عَلَيْهِ.
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا: جو تمہارے پاس امانت رکھے اسے امانت لوٹاؤ ١ ؎ اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے اس کے ساتھ (بھی) خیانت نہ کرو ٢ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢ - بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی کا کسی دوسرے کے ذمہ کوئی چیز ہو اور وہ اسے لے کر چلا جائے پھر اس جانے والے کی کوئی چیز اس کے ہاتھ میں آئے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس میں سے اتنا روک لے جتنا وہ اس کالے کر گیا ہے، ٣ - تابعین میں سے بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے، اور یہی ثوری کا بھی قول ہے، وہ کہتے ہیں: اگر اس کے ذمہ درہم ہو اور (بطور امانت) اس کے پاس اس کے دینار آ گئے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے دراہم کے بدلے اسے روک لے، البتہ اس کے پاس اس کے دراہم آ جائیں تو اس وقت اس کے لیے درست ہوگا کہ اس کے دراہم میں سے اتنا روک لے جتنا اس کے ذمہ اس کا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ٨١ (٣٥٣٥)، (تحفة الأشراف: ١٢٨٣٦)، وسنن الدارمی/البیوع ٥٧ (٢٦٣٩) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یہ حکم واجب ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے: «إن اللہ يأمرکم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها» (النساء: ٥٨ ٢ ؎: یہ حکم استحبابی ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے: «وجزاء سيئة سيئة مثلها» (الشوری: ٤٠ ) برائی کی جزاء اسی کے مثل برائی ہے نیز ارشاد ہے: «وإن عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به» (النحل: ١٢٦ ) یہ دونوں آیتیں اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ اپنا حق وصول کرلینا چاہیئے، ابن حزم کا قول ہے کہ جس نے خیانت کی ہے اس کے مال پر قابو پانے کی صورت میں اپنا حق وصول لینا واجب ہے، اور یہ خیانت میں شمار نہیں ہوگی بلکہ خیانت اس صورت میں ہوگی جب وہ اپنے حق سے زیادہ وصول کرے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشکاة (2934)، الصحيحة (4230)، الروض النضير (16)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1264
Sayyidina Abu Hurayrah (RA) Abu Waddak was Jabr ibn Nawf reported that Allah’s Messenger ﷺ said, “Return the trust to him who has trusted you with it, but do not commit treachery with one who commits treachery.” [Abu Dawud 3535]
Top