سنن الترمذی - حج کا بیان - حدیث نمبر 893
حدیث نمبر: 893
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْمَسْعُودِيِّ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدَّمَ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ لَا تَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَمْ يَرَوْا بَأْسًا أَنْ يَتَقَدَّمَ الضَّعَفَةُ مِنْ الْمُزْدَلِفَةِ بِلَيْلٍ يَصِيرُونَ إِلَى مِنًى، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَنَّهُمْ لَا يَرْمُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، ‏‏‏‏‏‏وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي أَنْ يَرْمُوا بِلَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ لَا يَرْمُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ.
ضعیف لوگوں کو مزدلفہ سے جلدی روانہ کرنا
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے اپنے گھر والوں میں سے کمزوروں (یعنی عورتوں اور بچوں) کو پہلے ہی روانہ کردیا، اور آپ نے (ان سے) فرمایا: جب تک سورج نہ نکل جائے رمی جمار نہ کرنا ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- ابن عباس ؓ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ابن عباس ؓ کی حدیث «بعثني رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم في ثقل» صحیح حدیث ہے، یہ ان سے کئی سندوں سے مروی ہے، شعبہ نے یہ حدیث مشاش سے اور مشاش نے عطاء سے اور عطا نے ابن عباس سے اور ابن عباس نے فضل بن عباس سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم نے اپنے گھر والوں میں سے کمزور لوگوں کو پہلے ہی رات کے وقت مزدلفہ سے منیٰ کے لیے روانہ کردیا تھا، یہ حدیث غلط ہے۔ مشاش نے اس میں غلطی کی ہے، انہوں نے اس میں فضل بن عباس کا اضافہ کردیا ہے۔ ابن جریج اور دیگر لوگوں نے یہ حدیث عطاء سے اور عطاء نے ابن عباس سے روایت کی ہے اور اس میں فضل بن عباس کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، ٣- مشاش بصرہ کے رہنے والے ہیں اور ان سے شعبہ نے روایت کی ہے، ٤- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ کمزور لوگ مزدلفہ سے رات ہی کو منیٰ کے لیے روانہ ہوجائیں، ٥- اکثر اہل علم نے نبی اکرم کی حدیث کے مطابق ہی کہا ہے کہ لوگ جب تک سورج طلوع نہ ہو رمی نہ کریں، ٦- اور بعض اہل علم نے رات ہی کو رمی کرلینے کی رخصت دی ہے۔ اور عمل نبی اکرم کی حدیث پر ہے کہ وہ رمی نہ کریں جب تک کہ سورج نہ نکل جائے، یہی سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف: ٦٤٧٢) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن ابی داود/ الحج ٦٦ (١٩٤٠)، سنن النسائی/الحج ٢٢٢ (٣٠٦٦)، سنن ابن ماجہ/المناسک ٦٢ (٣٠٢٥)، مسند احمد (١/٢٣٤، ٣١١) من غیر ہذا الطریق۔
وضاحت: ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ سے رات ہی میں منیٰ بھیج دینا جائز ہے تاکہ وہ بھیڑ بھاڑ سے پہلے کنکریاں مار کر فارغ ہوجائیں لیکن سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں نہ ماریں، ابن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم ہماری رانوں پر دھیرے سے مارتے تھے اور فرماتے تھے: اے میرے بچو جمرہ پر کنکریاں نہ مارنا جب تک کہ سورج نہ نکل جائے، یہی قول راجح ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3025)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 893
Sayyidina Ibn Abbas (RA) narrated that the Prophet ﷺ sent ahead the weak people of his household and told them that they should not pelt the pebbles on the jamrah before the sun rise. [Ahmed3203]
Top