سنن الترمذی - حج کا بیان - حدیث نمبر 824
حدیث نمبر: 824
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ:‏‏‏‏ هِيَ حَلَالٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الشَّامِيُّ:‏‏‏‏ إِنَّ أَبَاكَ قَدْ نَهَى عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ أَبِي نَهَى عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
تمتع کے بارے میں
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے اہل شام میں سے ایک شخص سے سنا، وہ عبداللہ بن عمر ؓ سے حج میں عمرہ سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں پوچھ رہا تھا، تو عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا: یہ جائز ہے۔ اس پر شامی نے کہا: آپ کے والد نے تو اس سے روکا ہے؟ عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا: ذرا تم ہی بتاؤ اگر میرے والد کسی چیز سے روکیں اور رسول اللہ نے اسے کیا ہو تو میرے والد کے حکم کی پیروی کی جائے گی یا رسول اللہ کے حکم کی، تو اس نے کہا: رسول اللہ کے حکم کی، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ نے ایسا کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١- ابن عباس ؓ کی حدیث ( ٨٢٢) حسن ہے، ٢- اس باب میں علی، عثمان، جابر، سعد، اسماء بنت ابی بکر اور ابن عمر ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام وغیرہم میں سے ایک جماعت نے اسی کو پسند کیا ہے کہ حج میں عمرہ کو شامل کر کے حج تمتع کرنا درست ہے، ٤- اور حج تمتع یہ ہے کہ آدمی حج کے مہینوں میں عمرہ کے ذریعہ داخل ہو، پھر عمرہ کر کے وہیں ٹھہرا رہے یہاں تک کہ حج کرلے تو وہ متمتع ہے، اس پر ہدی کی جو اسے میسر ہو قربانی لازم ہوگی، اگر اسے ہدی نہ مل سکے تو حج میں تین دن اور گھر لوٹ کر سات دن کے روزے رکھے، ٥- متمتع کے لیے مستحب ہے کہ جب وہ حج میں تین روزے رکھے تو ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دنوں میں رکھے اور اس کا آخری روزہ یوم عرفہ کو ہو، اور صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمر اور عائشہ ؓ بھی شامل ہیں کے قول کی رو سے اگر وہ دس دنوں میں یہ روزے نہ رکھ سکے تو ایام تشریق میں رکھ لے۔ یہی مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ٦- اور بعض کہتے ہیں: ایام تشریق میں روزہ نہیں رکھے گا۔ یہ اہل کوفہ کا قول ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اہل حدیث حج میں عمرہ کو شامل کر کے حج تمتع کرنے کو پسند کرتے ہیں، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف: ٦٨٦٢) (صحیح الإسناد)
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 823
Ibn Shihab narrated that Saalim ibn Abdullah ﷺ told him that he heard a man of Syria ask Abdullah ibn Umar (RA) about tamattu’, the Hajj with umrah. Abdullah ibn Umar (RA) said to him. “It is lawful.” The Syrian said, “But, your father had disallowed it.” So, Abdullah ibn Umar (RA) said, “What would you say if my father disallowed it while Allah’s Messenger ﷺ performed it, will you obey my father’s command or the command of Allah’s Messenger ﷺ ?“ The man said, “Rather, the command of Allah’s Messenger ﷺ (will I obey).” So, he asserted, “Allah’s Messenger had done it indeed.”
Top