سنن الترمذی - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 1714
حدیث نمبر: 1714
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجِيءَ بِالْأُسَارَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا تَقُولُونَ فِي هَؤُلَاءِ الْأُسَارَى ؟ ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَ قِصَّةً فِي هَذَا الْحَدِيثِ طَوِيلَةً، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُرْوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ مَشُورَةً لِأَصْحَابِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مشورے کے بارے میں
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ جب بدر کے دن قیدیوں کو لایا گیا تو رسول اللہ نے فرمایا: ان کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو ، پھر راوی نے اس حدیث میں ایک طویل قصہ بیان کیا ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث حسن ہے، ٢ - ابوعبیدہ نے اپنے باپ سے نہیں سنا ہے، ٣ - ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا جو اپنے ساتھیوں سے زیادہ مشورہ لیتا ہو ٢ ؎، ٤ - اس حدیث میں عمر، ابوایوب، انس اور ابوہریرہ ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف وأعادہ في تفسیر الأنفال (٣٠٨٤)، (تحفة الأشراف: ٩٦٢٨) (ضعیف) (ابو عبیدہ کا اپنے باپ ابن مسعود ؓ سے سماع نہیں ہے )
وضاحت: ١ ؎: قصہ (اختصار کے ساتھ) یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں: بدر کے قیدیوں کی بابت نبی اکرم نے اپنے اصحاب سے مشورہ لیا، ابوبکر ؓ کی رائے تھی کہ ان کے ساتھ نرم دلی برتی جائے اور ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے، عمر ؓ نے کہا: یہ آپ کی تکذیب کرنے والے لوگ ہیں، انہیں معاف کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ آپ حکم دیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے قریبی ساتھی کا سر قلم کرے، جب کہ بعض کی رائے تھی کہ سوکھی لکڑیوں کے انبار میں سب کو ڈال کر جلا دیا جائے، نبی اکرم سب کی باتیں سن کر خاموش رہے، اندر گئے پھر باہر آ کر فرمایا: اللہ تعالیٰ بعض دلوں کو دودھ کی طرح نرم کردیتا ہے جب کہ بعض کو پتھر کی طرح سخت کردیتا ہے، ابوبکر ؓ کی مثال ابراہیم و عیسیٰ سے دی، عمر ؓ کی نوح سے اور عبداللہ بن رواحہ ؓ کی موسیٰ (علیہ السلام) سے، پھر آپ نے ابوبکر ؓ کی رائے پسند کی اور فدیہ لے کر سب کو چھوڑ دیا، دوسرے دن جب عمر ؓ آئے تو رسول اللہ اور ابوبکر ؓ کو روتا دیکھ کر عرض کیا، اللہ کے رسول! رونے کا کیا سبب ہے؟ اگر مجھے معلوم ہوجاتا تو میں بھی شامل ہوجاتا، یا روہانسی صورت بنا لیتا، آپ نے فرمایا: بدر کے قیدیوں سے فدیہ قبول کرنے کے سبب تمہارے ساتھیوں پر جو عذاب آنے والا تھا اور اس درخت سے قریب ہوگیا تھا اس کے سبب رو رہا ہوں، پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی «ما کان لنبي أن يكون له أسری حتی يثخن في الأرض» (الأنفال: ٦٧ ٢ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں مشورہ کی کافی اہمیت ہے، اگر مسلمانوں کے سارے کام باہمی مشورہ سے انجام دیئے جائیں تو ان میں کافی خیر و برکت ہوگی، اور رب العالمین کی طرف سے ان کاموں کے لیے آسانیاں فراہم ہوں گی اور اس کی مدد شامل حال ہوگی۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (5 / 47 - 48)، وسيأتي (5080 // 598 / 3293 // بزيادة في المتن)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1714
Sayyidina Abdullah (RA) repdrted that when the captives of the Battle of Badr were brought Allah’s Messenger ﷺ asked (his Companions(RA)), “What do you say about these captives?’ (Abdullah (RA) then reported a lengthy account. [Ahmed 3632]
Top