سنن الترمذی - تقدیر کا بیان - حدیث نمبر 2143
حدیث نمبر: 2143
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا صَاحِبٌ لَنَا، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا يُعْدِي شَيْءٌ شَيْئًا ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏الْبَعِيرُ الْجَرِبُ الْحَشَفَةُ نُدْبِنُهُ فَيُجْرِبُ الْإِبِلُ كُلُّهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ فَمَنْ أَجْرَبَ الْأَوَّلَ، ‏‏‏‏‏‏لَا عَدْوَى وَلَا صَفَرَ، ‏‏‏‏‏‏خَلَقَ اللَّهُ كُلَّ نَفْسٍ وَكَتَبَ حَيَاتَهَا وَرِزْقَهَا وَمَصَائِبَهَا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ صَفْوَانَ الثَّقَفِيَّ الْبَصْرِيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ لَوْ حَلَفْتُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ، ‏‏‏‏‏‏لَحَلَفْتُ أَنِّي لَمْ أَرَ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ.
عدوی صفر اور ہامہ کی نفی کے متعلق
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: کسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی ، ایک اعرابی (بدوی) نے عرض کیا: اللہ کے رسول! خارشتی شرمگاہ والے اونٹ سے (جب اسے باڑہ میں لاتے ہیں) تو تمام اونٹ (کھجلی والے) ہوجاتے ہیں ، رسول اللہ نے فرمایا: پھر پہلے کو کس نے کھجلی دی؟ کسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی ہے اور نہ ماہ صفر کی نحوست کی کوئی حقیقت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر نفس کو پیدا کیا ہے اور اس کی زندگی، رزق اور مصیبتوں کو لکھ دیا ہے ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس اور انس ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: ٩٦٤٠)، وانظر مسند احمد (١/٤٤٠) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، سند میں ایک راوی " صاحب لنا " مبہم ہے، اور ہوسکتا ہے کہ یہ ابوہریرہ ؓ ہوں، ابو زرعہ ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں، نیز مسند احمد (٢/٣٢٧) میں یہ حدیث بواسطہ ابو زرعہ ابوہریرہ ؓ سے موجود ہے )
وضاحت: ١ ؎: اس باب میں زمانہ جاہلیت کی تین باتوں کی نفی کی گئی ہے، اور اس حدیث میں متعدی مرض اور صفر کے سلسلے میں موجود بداعتقادی پر نکیر ہے، اہل جاہلیت کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلے کے بغیر بیماری خود سے متعدی ہوتی ہے، یعنی خود سے پھیل جاتی ہے، اسلام نے ان کے اس اعتقاد باطل کو غلط ٹھہرایا، چناچہ رسول اللہ نے فرمایا: «لاعدوی» یعنی بیماری خود سے متعدی نہیں ہوتی، اور اس کے لیے سب سے پہلے اونٹ کو کھجلی کی بیماری کیسے لگی، کی بات کہہ کر سمجھایا اور بتایا کہ کسی بیماری کا لاحق ہونا اور اس بیماری سے شفاء دینا یہ سب اللہ رب العالمین کے حکم سے ہے وہی مسبب الاسباب ہے۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر سے ہوتا ہے، البتہ بیماریوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسباب کو اپنانا مستحب ہے،«ھامہ» یعنی الو کا ذکر باب میں ہے، اس حدیث میں نہیں ہے، بلکہ دوسری احادیث میں ہے آیا ہے، الو کو دن میں دکھائی نہیں دیتا ہے، تو وہ رات کو نکلتا ہے، اور اکثر ویرانوں میں رہتا ہے، عرب لوگ اس کو منحوس جانتے تھے، اور بعض یہ سمجھتے تھے کہ مقتول کی روح الو بن کر پکارتی پھرتی ہے، جب اس کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو وہ اڑ جاتا ہے، رسول اللہ نے اس خیال کو باطل قرار دیا، اور فرمایا: «و ولاهامة»، آج بھی الو کی نحوست کا اعتقاد باطل بہت سے لوگوں کے یہاں پایا جاتا ہے، جو جاہلیت کی بداعتقادی ہے، اسی طرح صفر کے مہینے کو جاہلیت کے زمانے میں لوگ منحوس قرار دیتے تھے، اور جاہل عوام اب تک اسے منحوس جانتے ہیں، صفر کے مہینے کے پہلے تیرہ دن جس میں رسول اللہ بیمار ہوئے تھے ان ایام کو تیرہ تیزی کہتے ہیں، ان میں عورتیں کوئی بڑا کام جیسے شادی بیاہ وغیرہ کرنے نہیں دیتیں، یہ بھی لغو ہے، صفر کا مہینہ اور مہینوں کی طرح ہے، کچھ فرق نہیں ہے۔ یہ بھی آتا ہے کہ عرب ماہ محرم کی جگہ صفر کو حرمت والا مہینہ بنا لیتے تھے، اسلام میں یہ بھی باطل، اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ عربوں کے اعتقاد میں پیٹ میں ایک سانپ ہوتا تھا جس کو صفر کہا جاتا ہے، بھوک کے وقت وہ پیدا ہوتا ہے اور آدمی کو ایذا پہنچاتا ہے، اور ان کے اعتقاد میں یہ متعدی مرض تھا، تو اسلام نے اس کو باطل قرار دیا (ملاحظہ ہو: النہایۃ فی غریب الحدیث: مادہ: صفر، نیز ان مسائل پر ہم نے سنن ابن ماجہ (کتاب الطب: باب نمبر ٤٣ ، حدیث نمبر ٣٥٣ ٦-٣٥٤١) میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، اس کا مطالعہ مفید ہوگا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1152)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2143
Sayyidina Ibn Mas’ud (RA) reported that Allah’s Messenger ﷺ stood up between them and said, “There is no infection.” A villager said, “O Messenger of Allah! ﷺ When a mangy camel mixes with other camels, they all are infected with mange.” He asked, “Then who brought mange to the first camel. (The illness of one does not come on another). Neither is there infection nor Safar. Allah created all souls and wrote down their life and their provision, and their hardships.” [Ahmed 4198]
Top