سنن النسائی - مساجد کے متعلق کتاب - حدیث نمبر 732
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ، ‏‏‏‏‏‏قال ابْنُ شِهَابٍ:‏‏‏‏ وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَصَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَادِمًا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِكَ جَاءَهُ الْمُخَلَّفُونَ فَطَفِقُوا يَعْتَذِرُونَ إِلَيْهِ وَيَحْلِفُونَ لَهُ وَكَانُوا بِضْعًا وَثَمَانِينَ رَجُلًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَبِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَانِيَتَهُمْ وَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَوَكَلَ سَرَائِرَهُمْ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى جِئْتُ فَلَمَّا سَلَّمْتُ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ تَعَالَ، ‏‏‏‏‏‏فَجِئْتُ حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي:‏‏‏‏ مَا خَلَّفَكَ ؟ أَلَمْ تَكُنِ ابْتَعْتَ ظَهْرَكَ ؟ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا لَرَأَيْتُ أَنِّي سَأَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ وَلَقَدْ أُعْطِيتُ جَدَلًا وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُكَ الْيَوْمَ حَدِيثَ كَذِبٍ لِتَرْضَى بِهِ عَنِّي لَيُوشَكُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُسْخِطُكَ عَلَيَّ وَلَئِنْ حَدَّثْتُكَ حَدِيثَ صِدْقٍ تَجِدُ عَلَيَّ فِيهِ إِنِّي لَأَرْجُو فِيهِ عَفْوَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَمَّا هَذَا فَقَدْ صَدَقَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِيكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْتُ فَمَضَيْتُ. مُخْتَصَرٌ.
بغیر نماز پڑھے ہوئے مسجد میں بیٹھنا اور مسجد سے باہر نکلنا
عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک ؓ سے سنا، وہ اپنا وہ واقعہ بیان کر رہے تھے جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ سے پیچھے رہ گئے تھے کہ رسول اللہ صبح کو تشریف لائے، اور جب آپ سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد جاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھتے، جب آپ نے ایسا کرلیا تو جنگ سے پیچھے رہ جانے والے لوگ آپ کے پاس آئے، آپ سے معذرت کرنے لگے، اور آپ کے سامنے قسمیں کھانے لگے، وہ اسّی سے کچھ زائد لوگ تھے تو رسول اللہ نے ان کے ظاہری بیان کو قبول کرلیا، اور ان سے بیعت کرلی، اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی، اور ان کے دلوں کے راز کو اللہ عزوجل کے سپرد کردیا، یہاں تک کہ میں آیا تو جب میں نے سلام کیا، تو آپ مجھے دیکھ کر مسکرائے جیسے کوئی غصہ میں مسکراتا ہے، پھر فرمایا: آ جاؤ! چناچہ میں آ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا ١ ؎، تو آپ نے مجھ سے پوچھا: تم کیوں پیچھے رہ گئے تھے؟ کیا تم نے اپنی سواری خرید نہیں لی تھی؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم اگر میں آپ کے علاوہ کسی اور کے پاس ہوتا تو میں اس کے غصہ سے اپنے آپ کو یقیناً بچا لیتا، مجھے باتیں بنانی خوب آتی ہے لیکن اللہ کی قسم، میں جانتا ہوں کہ اگر آپ کو خوش کرنے کے لیے میں آج آپ سے جھوٹ موٹ کہہ دوں تو قریب ہے کہ جلد ہی اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے، اور اگر میں آپ سے سچ سچ کہہ دوں تو آپ مجھ پر ناراض تو ہوں گے لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے معاف کر دے گا، اللہ کی قسم جب میں آپ سے پیچھے رہ گیا تھا تو اس وقت میں زیادہ طاقتور اور زیادہ مال والا تھا، تو رسول اللہ نے فرمایا: رہا یہ شخص تو اس نے سچ کہا، اٹھو چلے جاؤ یہاں تک کہ اللہ آپ کے بارے میں کوئی فیصلہ کر دے ، چناچہ میں اٹھ کر چلا آیا، یہ حدیث لمبی ہے یہاں مختصراً منقول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ١٩٨ (٣٠٨٨)، صحیح مسلم/المسافرین ١٢ (٧١٦)، سنن ابی داود/الجہاد ١٧٣ (٢٧٧٣)، ١٧٨ (٢٧٨١)، (تحفة الأشراف: ١١١٣٢)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/التفسیر ١٠ (٣١٠٢)، مسند احمد ٣/٤٥٥، ٤٥٧، ٤٥٩ و ٦/٣٨٨ (کعب بن مالک ؓ کی حدیث کی مفصل تخریج کے لیے حدیث رقم: (٣٤٥١) کی تخریج دیکھئے، یہاں باب کی مناسبت سے متن اور تخریج میں اختصار سے کام لیا گیا ہے) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: مؤلف نے اسی سے باب پر استدلال کیا ہے، یعنی: کعب ؓ بغیر تحیۃ المسجد پڑھے بیٹھ گئے، پھر اٹھ کر چلے گئے، رسول اللہ ﷺ نے ان کو تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم نہیں دیا، لیکن یہ بعض حالات کے لیے ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 731
Abdullah bin Kab (RA) said: "I heard Kab bin Malik telling the story of when he stayed behind from going out on the campaign of Tabuk with the Messenger of Allah ﷺ. He said: The Messenger of Allah ﷺ came back in the morning, and when he came back from a journey he would go to the Masjid first and pray two Rakahs there, then he would sit to (meet with) the people. When he did that, those who had stayed behind came to him and started giving their excuses, swearing by Allah. There were eighty-odd men, and the Messenger of Allah ﷺ accepted what they declared and accepted their oaths of allegiance; he prayed for forgiveness for them and left whatever was in their hearts to Allah. Then when I came and greeted him, he smiled as one who is angry, then he said: Come here. So I came and sat in front of him, [1] and he said: What kept you behind? Did you not buy a mount? I said: O Messenger of Allah, if I were to sit before anyone other than you of those who hold high positions in this world, I would find a way to avoid his anger. I am an eloquent man but, by Allah, I know that if I were to tell you a lie today to make you pleased with me, Allah would soon make you angry with me, but if I tell you the truth, it will make you angry with me, but I will still have the hope that Allah may forgive me. I have never been in a better position, physically or financially, than the time when I stayed behind and did not join you. The Messenger of Allah ﷺ said: This man has spoken the truth. Go away until Allah decides concerning you. So I got up and went away." This is an abridged version of narration. [1] It is this which the author cited the narration for. While the absence of the mention of a thing - in this case prayer - is not a proof that it does not exist.
Top