سنن النسائی - خرید و فروخت کے مسائل و احکام - حدیث نمبر 4527
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَطَاءٍ،‏‏‏‏ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَنَّهُ نَهَى عَنِ الْمُخَابَرَةِ،‏‏‏‏ وَالْمُزَابَنَةِ،‏‏‏‏ وَالْمُحَاقَلَةِ،‏‏‏‏ وَأَنْ يُبَاعَ الثَّمَرُ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ،‏‏‏‏ وَأَنْ لَا يُبَاعَ إِلَّا بِالدَّنَانِيرِ وَالدَّرَاهِمِ،‏‏‏‏ وَرَخَّصَ فِي الْعَرَايَا.
پھلوں کا بیچنا ان کی پختگی معلوم ہونے سے پہلے۔
جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے بیع مخابرہ، مزابنہ، محاقلہ سے، اور پکنے سے پہلے پھل بیچنے سے منع فرمایا، اور پھلوں کو درہم و دینار کے سوا کسی اور چیز کے بدلے بیچنے سے منع فرمایا، اور بیع عرایا میں رخصت دی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ٣٩١٠ (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: مخابرہ: بیل میں لگی ہوئی انگور کو کشمش (توڑی ہوئی خشک انگور) سے بیچنا، یا کھیت کو اس طرح بٹائی پر دینا کہ پیداوار کٹنے کے وقت کھیت کا مالک یہ کہے کہ فلاں حصے میں جو پیداوار ہے وہ میں لوں گا، ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ایک ہی کھیت کے مختلف حصوں میں مختلف انداز سے اچھی یا خراب پیداوار ہوتی ہے، اور کھیت کا مالک اچھی والی پیداوار لینا چاہتا ہے، یہ جھگڑے فساد یا دوسرے فریق کے نقصان کا سبب ہے، اس لیے بٹائی کے اس معاملہ سے روکا گیا، ہاں مطلق پیداوار کے آدھے یا تہائی پر بٹائی کا معاملہ صحیح ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر میں کیا تھا۔ ٢ ؎ مزابنہ: درخت پر لگے ہوئے پھل کو توڑے ہوئے پھل کے معینہ مقدار سے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں۔ محاقلہ: کھیت میں لگی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے غلّہ سے بیچنا۔ عرایا: عرایا یہ ہے کہ باغ کا مالک ایک یا دو درخت کے پھل کسی مسکین کو کھانے کے لیے مفت دیدے اور باغ کے اندر اس کے آنے جانے سے تکلیف ہو تو مالک اس درخت کے پھلوں کا اندازہ کر کے مسکین سے خرید لے اور اس کے بدلے تازہ تر یا خشک کھجور اس کے حوالے کر دے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 4523
It was narrated from Ata: "I heard Jabir bin Abdullah (narrate) from the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) that he forbade Mukhabarah, Muzabanah and Muhaqalah, an (he forbade) selling fruits until their condition is known, an that they should only sold for Dinars and Dirhams, but he granted a concession regarding the sale of Araya:
Top