سنن النسائی - امامت کے متعلق احادیث - حدیث نمبر 6943
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ سَأَلْنَا عَلِيًّا عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَيُّكُمْ يُطِيقُ ذَلِكَ قُلْنَا إِنْ لَمْ نُطِقْهُ سَمِعْنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ مِنْ هَا هُنَا كَهَيْئَتِهَا مِنْ هَا هُنَا عِنْدَ الْعَصْرِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَإِذَا كَانَتْ مِنْ هَا هُنَا كَهَيْئَتِهَا مِنْ هَا هُنَا عِنْدَ الظُّهْرِ صَلَّى أَرْبَعًا وَيُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا وَبَعْدَهَا ثِنْتَيْنِ وَيُصَلِّي قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا يَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِتَسْلِيمٍ عَلَى الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَالنَّبِيِّينَ وَمَنْ تَبِعَهُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ.
نماز عصر کے قبل کی سنت
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ہم نے علی ؓ سے رسول اللہ کی نماز کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا: تم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ ہم نے کہا: گرچہ ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے مگر سن تو لیں، تو انہوں نے کہا: جب سورج یہاں ہوتا ١ ؎ جس طرح عصر کے وقت یہاں ہوتا ہے ٢ ؎ تو آپ دو رکعت (سنت) پڑھتے ٣ ؎، اور جب سورج یہاں ہوتا جس طرح ظہر کے وقت ہوتا ہے تو آپ چار رکعت (سنت) پڑھتے ٤ ؎، اور ظہر سے پہلے چار رکعت پڑھتے ٥ ؎، اور اس کے بعد دو رکعت پڑھتے، اور عصر سے پہلے چار رکعت (سنت) پڑھتے، ہر دو رکعت کے درمیان مقرب فرشتوں اور نبیوں پر اور ان کے پیروکار مومنوں اور مسلمانوں پر سلام کے ذریعہ ٦ ؎ فصل کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ٣٠١ (٥٩٨)، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٠٩ (١١٦١)، (تحفة الأشراف: ١٠١٣٧)، مسند احمد ١/٨٥، ١١١، ١٤٣، ١٤٧، ١٦٠ (حسن )
وضاحت: ١ ؎: یعنی مشرق میں۔ ٢ ؎: یعنی مغرب میں۔ ٣ ؎: یعنی چاشت کے وقت آپ ﷺ دو رکعت پڑھتے۔ ٤ ؎: اس سے مراد صلاۃ الاوابین ہے جسے آپ ﷺ زوال سے پہلے پڑھتے تھے۔ ٥ ؎: ظہر سے پہلے چار رکعت اور دو رکعت دونوں کی روایتیں آئی ہیں، اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ دونوں جائز ہے، کبھی ایسا کرلے اور کبھی ایسا، لیکن چار والی روایت کو اختیار کرنا اولیٰ ہے، کیونکہ یہ قولی حدیث سے ثابت ہے۔ ٦ ؎: یعنی تشہد کے ذریعہ فصل کرتے، تشہد کو تسلیم اس لیے کہا گیا ہے کہ اس میں السلام علينا وعلى عباده الله الصالحين کا ٹکڑا ہے۔
قال الشيخ الألباني: سكت عنه الشيخ
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 874
Top