مسند امام احمد - وہ حدیثیں جو عتی بن ضمرہ سعدی نے ان سے نقل کی ہیں۔ - حدیث نمبر 20292
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عُتَيٍّ قَالَ رَأَيْتُ شَيْخًا بِالْمَدِينَةِ يَتَكَلَّمُ فَسَأَلْتُ عَنْهُ فَقَالُوا هَذَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ فَقَالَ إِنَّ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام لَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ قَالَ لِبَنِيهِ أَيْ بَنِيَّ إِنِّي أَشْتَهِي مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ فَذَهَبُوا يَطْلُبُونَ لَهُ فَاسْتَقْبَلَتْهُمْ الْمَلَائِكَةُ وَمَعَهُمْ أَكْفَانُهُ وَحَنُوطُهُ وَمَعَهُمْ الْفُؤُوسُ وَالْمَسَاحِي وَالْمَكَاتِلُ فَقَالُوا لَهُمْ يَا بَنِي آدَمَ مَا تُرِيدُونَ وَمَا تَطْلُبُونَ أَوْ مَا تُرِيدُونَ وَأَيْنَ تَذْهَبُونَ قَالُوا أَبُونَا مَرِيضٌ فَاشْتَهَى مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ قَالُوا لَهُمْ ارْجِعُوا فَقَدْ قُضِيَ قَضَاءُ أَبِيكُمْ فَجَاءُوا فَلَمَّا رَأَتْهُمْ حَوَّاءُ عَرَفَتْهُمْ فَلَاذَتْ بِآدَمَ فَقَالَ إِلَيْكِ إِلَيْكِ عَنِّي فَإِنِّي إِنَّمَا أُوتِيتُ مِنْ قِبَلِكِ خَلِّي بَيْنِي وَبَيْنَ مَلَائِكَةِ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَقَبَضُوهُ وَغَسَّلُوهُ وَكَفَّنُوهُ وَحَنَّطُوهُ وَحَفَرُوا لَهُ وَأَلْحَدُوا لَهُ وَصَلَّوْا عَلَيْهِ ثُمَّ دَخَلُوا قَبْرَهُ فَوَضَعُوهُ فِي قَبْرِهِ وَوَضَعُوا عَلَيْهِ اللَّبِنَ ثُمَّ خَرَجُوا مِنْ الْقَبْرِ ثُمَّ حَثَوْا عَلَيْهِ التُّرَابَ ثُمَّ قَالُوا يَا بَنِي آدَمَ هَذِهِ سُنَّتُكُمْ
وہ حدیثیں جو عتی بن ضمرہ سعدی نے ان سے نقل کی ہیں۔
عتی کہتے ہیں کہ میں نے مدینہ منورہ میں ایک بزرگ کو گفتگو کرتے ہوئے دیکھا تو لوگوں سے ان کے متعلق پوچھا (یہ کون ہیں) لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت ابی بن کعب ؓ ہیں انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت آدم (علیہ السلام) کے دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹوں سے فرمایا بچو! میرا دل جنت کا پھل کھانے کی خواہش کر رہا ہے چناچہ ان کے بیٹے جنتی پھل کی تلاش میں نکل گئے سامنے سے فرشتے آتے ہوئے دکھائی دیئے ان کے ساتھ کفن اور حنوط تھی اور ان کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں، پھاوڑے اور کسیاں بھی تھیں فرشتوں نے ان سے پوچھا کہ اے اولاد آدم کہاں کا ارادہ ہے اور کس چیز کو تلاش کر رہے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے والد بیمار ہیں اور ان کا دل جنتی پھل کھانے کو چاہ رہا ہے فرشتوں نے ان سے کہا کہ واپس چلے جاؤ کہ تمہارے والد کا وقت آخر قریب آگیا ہے۔ فرشتے جب حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو حضرت حواء (علیہا السلام) انہیں دیکھتے ہی پہچان گئیں اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ چمٹ گئیں حضرت آدم (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا پیچھے ہٹو تمہاری ہی وجہ سے میرے ساتھ یہ معاملات پیش آئے میرا اور میرے رب کے فرشتوں کا راستہ چھوڑ دو چناچہ فرشتوں نے ان کی روح قبض کرلی انہیں غسل دیا کفن پہنایا، حنوط لگائی گڑھا کھود کر قبر تیار کی ان کی نماز جنازہ پڑھی پھر قبر میں اتر کر انہیں قبر میں لٹایا اور اس پر کچی اینٹیں برابر کردیں پھر قبر سے باہر نکل کر ان پر مٹی ڈالنے لگے اور اس کے بعد کہنے لگے اے بنی آدم! یہ ہے مردوں کو دفن کرنے کا طریقہ۔
Top