مسند امام احمد - وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے نقل کی ہیں۔ - حدیث نمبر 20202
حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنَّا عِنْدَهُ فَقَالَ الْقَوْمُ إِنَّ نَوْفًا الشَّامِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ الَّذِي ذَهَبَ يَطْلُبُ الْعِلْمَ لَيْسَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ مُتَّكِئًا فَاسْتَوَى جَالِسًا فَقَالَ كَذَلِكَ يَا سَعِيدُ قُلْتُ نَعَمْ أَنَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ ذَاكَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَذَبَ نَوْفٌ حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى صَالِحٍ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى أَخِي عَادٍ ثُمَّ قَالَ إِنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام بَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ قَوْمَهُ ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ قَالَ لَهُمْ مَا فِي الْأَرْضِ أَحَدٌ أَعْلَمُ مِنِّي وَأَوْحَى اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَيْهِ أَنَّ فِي الْأَرْضِ مَنْ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ وَآيَةُ ذَلِكَ أَنْ تُزَوَّدَ حُوتًا مَالِحًا فَإِذَا فَقَدْتَهُ فَهُوَ حَيْثُ تَفْقِدُهُ فَتَزَوَّدَ حُوتًا مَالِحًا فَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ حَتَّى إِذَا بَلَغَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرُوا بِهِ فَلَمَّا انْتَهَوْا إِلَى الصَّخْرَةِ انْطَلَقَ مُوسَى يَطْلُبُ وَوَضَعَ فَتَاهُ الْحُوتَ عَلَى الصَّخْرَةِ وَاضْطَرَبَ فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا قَالَ فَتَاهُ إِذَا جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثْتُهُ فَأَنْسَاهُ الشَّيْطَانُ فَانْطَلَقَا فَأَصَابَهُمْ مَا يُصِيبُ الْمُسَافِرَ مِنْ النَّصَبِ وَالْكَلَالِ وَلَمْ يَكُنْ يُصِيبُهُ مَا يُصِيبُ الْمُسَافِرَ مِنْ النَّصَبِ وَالْكَلَالِ حَتَّى جَاوَزَ مَا أُمِرَ بِهِ فَقَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ لَهُ فَتَاهُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ أَنْ أُحَدِّثَكَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا قَالَ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَرَجَعَا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا يَقُصَّانِ الْأَثَرَ حَتَّى إِذَا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَأَطَافَ بِهَا فَإِذَا هُوَ مُسَجًّى بِثَوْبٍ لَهُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ لَهُ مَنْ أَنْتَ قَالَ مُوسَى قَالَ مَنْ مُوسَى قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ أُخْبِرْتُ أَنَّ عِنْدَكَ عِلْمًا فَأَرَدْتُ أَنْ أَصْحَبَكَ قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا قَالَ فَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا قَالَ قَدْ أُمِرْتُ أَنْ أَفْعَلَهُ قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا قَالَ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَجَ مَنْ كَانَ فِيهَا وَتَخَلَّفَ لِيَخْرِقَهَا قَالَ فَقَالَ لَهُ مُوسَى تَخْرِقُهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَوْا عَلَى غِلْمَانٍ يَلْعَبُونَ عَلَى سَاحِل الْبَحْرِ وَفِيهِمْ غُلَامٌ لَيْسَ فِي الْغِلْمَانِ غُلَامٌ أَنْظَفَ يَعْنِي مِنْهُ فَأَخَذَهُ فَقَتَلَهُ فَنَفَرَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام عِنْدَ ذَلِكَ وَقَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ فَأَخَذَتْهُ ذَمَامَةٌ مِنْ صَاحِبِهِ وَاسْتَحَى فَقَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ لِئَامًا اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا وَقَدْ أَصَابَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام جَهْدٌ فَلَمْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ لَهُ مُوسَى مِمَّا نَزَلَ بِهِمْ مِنْ الْجَهْدِ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ فَأَخَذَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام بِطَرَفِ ثَوْبِهِ فَقَالَ حَدِّثْنِي فَقَالَ أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا فَإِذَا مَرَّ عَلَيْهَا فَرَآهَا مُنْخَرِقَةً تَرَكَهَا وَرَقَّعَهَا أَهْلُهَا بِقِطْعَةِ خَشَبَةٍ فَانْتَفَعُوا بِهَا وَأَمَّا الْغُلَامُ فَإِنَّهُ كَانَ طُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ كَافِرًا وَكَانَ قَدْ أُلْقِيَ عَلَيْهِ مَحَبَّةٌ مِنْ أَبَوَيْهِ وَلَوْ أَطَاعَاهُ لَأَرْهَقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا وَوَقَعَ أَبُوهُ عَلَى أُمِّهِ فَعَلِقَتْ فَوَلَدَتْ مِنْهُ خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا
وہ حدیثیں جو حضرت ابن عباس ؓ نے ان سے نقل کی ہیں۔
حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا کہ نوف بکالی کا خیال ہے کہ (حضرت خضر (علیہ السلام) والے) موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ ہیں ابن عباس ؓ بولے دشمن اللہ جھوٹ بولتا ہے مجھ سے حضرت ابی بن کعب ؓ نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے تقریر فرما رہے تھے تقریر ختم ہونے کے بعد ایک شخص نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں سب سے بڑا عالم ہوں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا الہٰی اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے؟ حکم دیا گیا کہ اپنے ساتھ زنبیل میں ایک (بھنی ہوئی) مچھلی رکھ لو ( اور سفر کو چل دو ) جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ملے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک مچھلی لے کر زنبیل میں ڈالی اور چل دیئے اور اپنے ساتھ ایک خادم یوشع بن نون کو بھی لیتے گئے چلتے چلتے جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں (رک گئے اور) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس پتھر پر سر رکھ کر سوگئے اتنے میں مچھلی زنبیل سے پھڑک کر نکلی اور دریا میں سرنگ بناتی ہوئی اپنی راہ چلی گئی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بیدار ہوئے تو موسیٰ نے اپنے خادم سے فرمایا ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے اب کھانا لے آؤ اور موسیٰ کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہ ہوئی تھی جب تک کہ مقام مقررہ سے آگے نہ بڑھے تھے بلکہ اس وقت تھکان معلوم ہونے لگی جب مقام مقررہ سے آگے بڑھ گئے خادم کہنے لگا کیا بتاؤں جب ہم اس پتھرکے پاس پہنچے تو میں مچھلی وہاں بھول گیا ( اور آپ سے میں نے اس کا تذکرہ نہ کیا) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اسی جگہ کی تو ہم کو تلاش تھی چناچہ الٹے پاؤں قدم پر قدم ڈالتے واپس لوٹے۔ پتھر تک پہنچے ہی تھے کہ ایک آدمی کپڑے سے سر لپیٹے ہوئے نظر آیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سلام کیا خضر بولے تمہارے ملک میں سلام کا رواج کہاں ہے (یہ تم نے سلام کیسے کیا؟ ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میں موسیٰ ہوں خضربولے کیا بنی اسرائیل والے موسیٰ میں نے کہا جی ہاں اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کیا میں آپ کے ہمراہ اس شرط پر چل سکتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ نے جو علم آپ کو عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ حصہ کی مجھے بھی تعلیم دیجئے حضرت خضر (علیہ السلام) بولے آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکیں گے (درمیان میں بول اٹھیں گے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کا مجھے وہ حصہ عطا فرمایا ہے جو آپ کو نہیں دیا اور آپ کو وہ علم دیا جس سے میں ناواقف ہوں (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا انشاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے میں آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا) آخرکار دونوں دریا کے کنارے کنارے چل دیئے کہ کشتی موجود نہ تھی اتنے میں ادھر سے ایک کشتی کا گزر ہوا انہوں نے کشتی والوں سے سوار ہونے کے متعلق کچھ بات چیت کی حضرت خضر (علیہ السلام) کو لوگوں نے پہچان لیا اس لئے کشتی والوں نے دونوں کو بغیر کرایہ کے سوار کرلیا اس کے بعد خضر (علیہ السلام) نے کشتی کو اچھی طرح دیکھ کر بسولا نکال کر کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تم نے یہ کیا کیا؟ ان لوگوں نے تو بغیر کرایہ کے ہم کو سوار کرلیا اور تم نے ان کی کشتی توڑ کر سب کو ڈبونا چاہا تم نے یہ عجیب بات کی؟ خضر (علیہ السلام) بولے میں نے تم سے نہیں کہہ دیا تھا کہ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکو گے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا بھول چوک پر میری گرفت نہ کیجئے اور مجھ پر میرے کام میں دشواری نہ ڈالیے اسی دوران ایک چڑیا نے آکر سمندر میں اپنی چونچ ڈالی حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا میرا اور تمہارا علم اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں کرسکتا جتنی کمی اس چڑیا نے اس سمندر کے پانی میں کی ہے۔ پھر یہ دونوں حضرات کشتی سے نکل کر چل دیئے ساحل سمندر پر ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا خضر (علیہ السلام) نے اس کا سر پکڑ کر اپنے ہاتھ سے گردن اکھاڑ دی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بولے تم نے جو ایک معصوم جان کو بلا قصور مار ڈالا یہ تم نے بہت برا کام کیا خضر (علیہ السلام) بولے کیا میں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر ضبط نہ کرسکو گے موسیٰ نے کہا اچھا اب اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ دریافت کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھنا آپ نے میرا عذر بہت مان لیا آخر کار پھر دونوں چل دیئے چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہنچے گاؤں والوں سے کھانا مانگا انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کردیا ان کو وہاں ایک دیوار نظر آئی جو گرنے کے قریب تھی، حضرت خضر (علیہ السلام) نے ہاتھ کا اشارہ کر کے اس کو سیدھا کردیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ہم ان لوگوں کے پاس آئے اور انہوں نے ہم کو نہ کھانا دیا نہ مہمانی کی لیکن آپ نے ان کی دیوار ٹھیک کردی اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت لے سکتے تھے حضرت خضر (علیہ السلام) بولے بس یہی میرے تمہارے درمیان جدائی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے کپڑے کا کنارہ پکڑ کر کہا کہ مجھے ان واقعات کی تفصیل تو بتا دیجئے انہوں نے فرمایا کشتی والوں سے آگے ایک ظالم بادشاہ تھا جو ثابت اور عمدہ کشتیاں چھین لیا کرتا تھا (اس لئے حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس کشتی کو عیب دار کردیا) اور وہ لڑکا کافر تھا اس کے والدین نیک آدمی تھے (خوف ہوا کہ کہیں والدین اس کی وجہ سے تباہ نہ ہوں اس لئے حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس کو بحکم اللہ قتل کردیا) اور وہ دیوار دو یتیم بچوں کی تھی جس کے نیچے ان کا خزانہ محفوظ تھا اس کی حفاظت کے لئے حضرت خضر (علیہ السلام) نے دیوار سیدھی کردی تھی اور یہ کام میں نے اپنی مرضی سے نہیں کئے یہ ان تمام چیزوں کی حقیقت ہے جن پر آپ صبر نہیں سکے۔
Top