مسند امام احمد - حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ - حدیث نمبر 1528
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أُنْزِلَتْ فِيَّ أَرْبَعُ آيَاتٍ يَوْمَ بَدْرٍ أَصَبْتُ سَيْفًا فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَفِّلْنِيهِ فَقَالَ ضَعْهُ ثُمَّ قَامَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَفِّلْنِيهِ فَقَالَ ضَعْهُ ثُمَّ قَامَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَفِّلْنِيهِ أُجْعَلْ كَمَنْ لَا غَنَاءَ لَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعْهُ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ يَسْأَلُونَكَ عَنْ الْأَنْفَالِ قُلْ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ قَالَ وَصَنَعَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ طَعَامًا فَدَعَانَا فَشَرِبْنَا الْخَمْرَ حَتَّى انْتَشَيْنَا قَالَ فَتَفَاخَرَتْ الْأَنْصَارُ وَقُرَيْشٌ فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ نَحْنُ أَفْضَلُ مِنْكُمْ وَقَالَتْ قُرَيْشٌ نَحْنُ أَفْضَلُ مِنْكُمْ فَأَخَذَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ لَحْيَيْ جَزُورٍ فَضَرَبَ بِهِ أَنْفَ سَعْدٍ فَفَزَرَهُ قَالَ فَكَانَ أَنْفُ سَعْدٍ مَفْزُورًا قَالَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ قَالَ وَقَالَتْ أُمُّ سَعْدٍ أَلَيْسَ اللَّهُ قَدْ أَمَرَهُمْ بِالْبِرِّ فَوَاللَّهِ لَا أَطْعَمُ طَعَامًا وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّى أَمُوتَ أَوْ تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ قَالَ فَكَانُوا إِذَا أَرَادُوا أَنْ يُطْعِمُوهَا شَجَرُوا فَاهَا بِعَصًا ثُمَّ أَوْجَرُوهَا قَالَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا قَالَ وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سَعْدٍ وَهُوَ مَرِيضٌ يَعُودُهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ قَالَ لَا قَالَ فَبِثُلُثَيْهِ فَقَالَ لَا قَالَ فَبِثُلُثِهِ قَالَ فَسَكَتَ
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب کے بارے قرآن کریم کی چار آیات مبارکہ نازل ہوئی ہیں، میرے والد کہتے ہیں کہ ایک غزوہ میں مجھے ایک تلوار ملی، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ مجھے عطاء فرما دیں، فرمایا اسے رکھ دو، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ مجھے عطاء فرما دیجئے، کیا میں اس شخص کی طرح سمجھا جاؤں گا جسے کوئی ضرورت ہی نہ ہو؟ نبی ﷺ نے پھر فرمایا اسے جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دو، اس پر سورت انفال کی ابتدائی آیت نازل ہوئی۔ پھر جب میں نے اسلام قبول کیا تھا تو میری والدہ نے مجھ سے کہا کیا اللہ نے تمہیں صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم نہیں دیا؟ بخدا! میں اس وقت تک کچھ کھاؤں گی اور نہ پیوں گی جب تک تم محمد ﷺ کا انکار نہ کردو گے، چناچہ ایسا ہی ہوا، انہوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا حتی کہ لوگ زبردستی ان کے منہ میں لکڑی ڈال کر اسے کھولتے اور اس میں کوئی پینے کی چیز انڈیل دیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی ہے۔۔۔۔ لیکن اگر وہ تمہیں شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات نہ مانو۔ پھر ایک مرتبہ نبی ﷺ میری بیمار پرسی کے لئے تشریف لائے، میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے کل مال کی وصیت کردوں؟ نبی ﷺ نے مجھے اس سے منع فرمایا: نصف کے متعلق سوال پر بھی منع کردیا، لیکن ایک تہائی کے سوال پر آپ ﷺ خاموش رہے اور اس کے بعد لوگوں نے اس پر عمل شروع کردیا۔
Top