مسند امام احمد - حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 18717
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ قَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُنِيخٌ بِالْأَبْطَحِ فَقَالَ لِي أَحَجَجْتَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَبِمَ أَهْلَلْتَ قَالَ قُلْتُ لَبَّيْكَ بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَدْ أَحْسَنْتَ قَالَ طُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ أَحِلَّ قَالَ فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ بَنِي قَيْسٍ فَفَلَّتْ رَأْسِي ثُمَّ أَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ قَالَ فَكُنْتُ أُفْتِي بِهِ النَّاسَ حَتَّى كَانَ خِلَافَةُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ فَقَالَ رَجُلٌ يَا أَبَا مُوسَى أَوْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ رُوَيْدَكَ بَعْضَ فُتْيَاكَ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ بَعْدَكَ قَالَ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ فُتْيَا فَلْيَتَّئِدْ فَإِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ فَبِهِ فَأْتَمُّوا قَالَ فَقَدِمَ عُمَرُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنَّ كِتَابَ اللَّهِ تَعَالَى يَأْمُرُنَا بِالتَّمَامِ وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى بَلَغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کی مرویات
حضرت ابوموسیٰ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے اپنی قوم کے علاقے میں بھیج دیا، جب حج کاموسم قریب آیا تو نبی کریم ﷺ حج کے لئے تشریف لے گئے میں نے بھی حج کی سعادت حاصل کی، میں جب حاضر خدمت میں ہوا تو نبی کریم ﷺ ابطح میں پڑاؤ کئے ہوئے تھے مجھ سے پوچھا کہ اے عبداللہ بن قیس! تم نے کس نیت سے احرام باندھا؟ میں نے عرض کیا " لبیک بحج باہلال کا ھلال النبی ﷺ کہہ کر، نبی کریم ﷺ نے فرمایا بہت اچھایہ بتاؤ کہ کیا اپنے ساتھ ہدی کا جانور لائے ہو؟ میں نے کہا نہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا جا کر بیت اللہ کا طواف کرو، صفا مروہ کے درمیان سعی کرو اور حلال ہوجاؤ۔ چناچہ میں چلا گیا اور نبی کریم ﷺ کے حکم کے مطابق کرلیا پھر اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے " خطمی " سے میرا سر دھویا اور میرے سر کی جوئیں دیکھیں، پھر میں نے آٹھ دی الحج کو حج کا احرام باندھ لیا میں نبی کریم ﷺ کے وصال تک لوگوں کو یہی فتویٰ دیتا رہا جس کا نبی کریم ﷺ نے مجھے حکم دیا تھا، حضرت صدیق اکبر ؓ کے زمانے میں بھی یہی صورت حال رہی جب حضرت عمر ؓ کا زمانہ آیا تو ایک دن میں حجر اسود کے قریب کھڑا ہوا تھا اور لوگوں کو یہی مسئلہ بتارہا تھا جس کا نبی کریم ﷺ نے مجھے حکم دیا تھا کہ اچانک ایک آدمی آیا اور سرگوشی میں مجھ سے کہنے لگا کہ یہ فتویٰ دینے میں جلدی سے کام مت لیجئے کیونکہ امیرالمؤمنین نے مناسک حج کے حوالے سے کچھ نئے احکام جاری کئے ہیں۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! جسے ہم نے مناسک حج کے حوالے سے کوئی فتویٰ دیا ہو وہ انتظار کرے کیونکہ امیرالمؤمنین آنے والے ہیں آپ ان ہی کی اقتداء کریں، پھر جب حضرت عمر ؓ آئے تو میں نے ان سے پوچھا اے امیرالمؤمنین! کیا مناسک حج کے حوالے سے آپ نے کچھ نئے احکام جاری کئے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں! اگر ہم کتاب اللہ کو لیتے ہیں تو وہ ہمیں اتمام کا حکم دیتی ہے اور اگر نبی کریم ﷺ کی سنت کو لیتے ہیں تو انہوں نے قربانی کرنے تک احرام نہیں کھولا تھا۔
Top