سنن النسائی - جنائز کے متعلق احادیث - حدیث نمبر 2567
أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ التِّرْمِذِيُّ قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قال:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ.
آیت کریمہ کی تفسیر
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: امام تو بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب قرآت کرے تو تم خاموش رہو ١ ؎، اور جب سمع اللہ لمن حمده کہے تو تم اللہم ربنا لک الحمد کہو ۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ٦٩ (٦٠٤)، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٣ (٨٤٦) مطولاً، (تحفة الأشراف: ١٢٣١٧)، مسند احمد ٢/٣٧٦، ٤٢٠، وأخرجہ: صحیح البخاری/الأذان ٧٤ (٧٢٢)، ٨٢ (٧٣٤)، صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (٤١٤)، سنن الدارمی/فیہ ٧١ (١٣٥٠) (حسن صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اقوال میں آپس میں ٹکراؤ ممکن ہی نہیں، نیز رسول اللہ ﷺ کے اپنے اقوال میں بھی ٹکراو محال ہے، یہ مسلّمہ عقیدہ ہے، اس لیے سورة فاتحہ کے وجوب پر دیگر قطعی احادیث کے تناظر میں اس صحیح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سورة فاتحہ کے علاوہ کی قرات کے وقت امام کی قرات سنو، اور چپ رہو، رہا سورة فاتحہ پڑھنے کے مانعین کا آیت و إذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا سے استدلال، تو ایک تو یہ آیت نماز فرض ہونے سے پہلے کی ہے، تو اس کو نماز پر کیسے فٹ کریں گے؟ دوسرے مکاتب میں ایک طالب علم کے پڑھنے کے وقت سارے بچوں کو خاموش رہ کر سننے کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ جب کہ یہ حکم وہاں زیادہ فٹ ہوتا ہے، اور نماز کے لیے تو لا صلاة إلا بفاتحة الکتاب والی حدیث سے استثناء بھی آگیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 921
Top